قیامت کٹ گئی ہے
اذیت کٹ رہی ہے
مرے آنگن کی رونق
کہیں پر بٹ رہی ہے
زباں سے ڈرنے والی
چٹاں پر ڈٹ رہی ہے
ذرا سی ریت دیکھو
اچانک ہٹ رہی ہے
ہماری ایڑیوں سے
زمیں بھی پھٹ رہی ہے
اُسے واپس بلاؤ
یہی وہ رٹ رہی ہے
مری چادر بچاؤ
کہیں سے پھٹ رہی ہے
قیامت کٹ گئی ہے
اذیت کٹ رہی ہے

0
1
19
السلام علیکم،
یہ نظم میرے ماضی کی ایک بازگشت ہے۔ ایک ایسی قیامت جو گزر تو گئی، مگر اذیت آج بھی سانس لے رہی ہے۔ ہر مصرع ایک کھوئی ہوئی رونق، بٹی ہوئی چادر، اور رکی ہوئی فریاد کا عکس ہے۔ یہ ان سب کے لیے ہے جو خاموش دکھ سہتے ہیں۔
طالبِ دعا
محسن رضا

0