میں نے اک مسیحا کو |
درد جب سنایا تھا |
آنکھ اس کی بوجھل تھی |
رنگ اس کا پیلا تھا |
سانس وہ نہ لے پائے |
ہائے ہائے کرتا تھا |
اس کی اس طبیعت پر |
یوں تو میں بھی حیراں ہوں |
اور سوچتا ہوں یہ |
تم بھی اک مسیحا ہو |
جس کی آنکھ میں میں نے |
نا ذرا نمی دیکھی |
نا ہی کچھ کہا تم نے |
تم کو میری حالت پر |
زار زار رونا تھا |
اور اب میں سوچوں تو |
کچھ زرا سا خائف ہوں |
تم اگر مسیحا ہو |
تو مرے خیالوں میں |
اب یہ خوف لاحق ہے |
کون میرا اپنا ہے |
کون میرا ساتھی ہے |
جس کو میری حالت پر |
زار ذار رونا تھا |
معلومات