مدتیں ہو گئیں بچھڑے ہوئے تُجھ سے جانا
آ کے اک بار مجھے سینے لگا کے جانا
تو نے دیکھی ہے کبھی آب سے بچھڑی مچھلی؟
دل مچلتا ہے تری یاد میں ایسے جانا
روز اک طور سے دیتا ہوں دلاسہ خود کو
روز اک طور سے یہ جسم بکھرتے جانا
دلِ مضطر کو سنبھالوں تو سنبھالوں کیسے
خواب لگتا ہے ترا آ کے یوں ایسے جانا
تن فقیری پہ اتر آئے تو ہی اچھا ہے
ورنہ قابو میں نہیں تجھ کو بھلائے جانا

1