| گر تو چاہے تو یہ دیوار ہٹا سکتا ہے |
| تو مصور ہے تو پھر کچھ بھی بنا سکتا ہے |
| سانس لیتا ہے تو ظاہر ہے دھڑکتا ہوگا |
| تُجھ سے بہتر یہ بھلا کون بتا سکتا ہے |
| میں جو عجلت میں خدوخال بنا دوں اس کے |
| تو جو مجنوں ہے قیامت بھی اٹھا سکتا ہے |
| کس طرح سوچ لوں میں کیسے بنا دوں وہ شکل؟ |
| تو کہ تضحیک پہ افلاک اٹھا سکتا ہے |
| تیرے محبوب کی صورت ہو تُجھی کو پیاری |
| تو تو آنکھوں سے اُسے دل میں بلا سکتا ہے |
| کس طرح سے میں تراشوں وہ خدوخال بتا |
| تُجھ پہ وجدان ہے تو اس کو بلا سکتا ہے |
| تو کہ عاقل بھی ہے غالب بھی ہے اور شاعر بھی |
| تو کہاں اس کا یہ احسان بھلا سکتا ہے |
| تیری محفل میں چلا جو بھی گیا ڈوب گیا |
| تو وہ محسن ہے جو یہ جام پلا سکتا ہے |
| رنج راحت ہیں زمانے کے خزانے محسن |
| اور تو موج میں یہ سب بھی لٹا سکتا ہے |
معلومات