میرے ہرجائی یہ کشکول محبت تیرا |
اس میں کیا خاک میں چھانوں گی زمانے کی بتا؟ |
تو نے یہ زود فراموشی نبھائی کیوں کر |
ایک کوڑی کی بھی قیمت نہ لگائی کیوں کر |
کبھی جو خواب میں آیا تھا چراغوں کی طرح |
پھر وہ صورت مرے اندر کی بجھائی کیوں کر؟ |
میں نے الفاظ میں اوڑھا تھا تری ذات کا لمس |
پھر وہ خوشبو سرِ محفل نہ سمائی کیوں کر؟ |
اب وہی دل ہے، وہی زخم، وہی یادیں ہیں |
اور تُو کہہ گیا سب بات پرائی کیوں کر؟ |
معلومات