میرے ہرجائی یہ کشکول محبت تیرا
اس میں کیا خاک میں چھانوں گی زمانے کی بتا؟
تو نے یہ زود فراموشی نبھائی کیوں کر
ایک کوڑی کی بھی قیمت نہ لگائی کیوں کر
کبھی جو خواب میں آیا تھا چراغوں کی طرح
پھر وہ صورت مرے اندر کی بجھائی کیوں کر؟
میں نے الفاظ میں اوڑھا تھا تری ذات کا لمس
پھر وہ خوشبو سرِ محفل نہ سمائی کیوں کر؟
اب وہی دل ہے، وہی زخم، وہی یادیں ہیں
اور تُو کہہ گیا سب بات پرائی کیوں کر؟

26