Circle Image

ڈاکٹر شاکرہ نندنی

@shakiranandini

ہر لفظ میں ایک دنیا، ہر نظم میں ایک جذبہ

ایک عورت کی خاموش اذیت پر مبنی ایک گہرا مراقبہ، جہاں حسن ایک بوجھ بن جاتا ہے اور خاموشی لفظوں سے بلند چیخ بن کر ابھرتی ہے۔ "ڈاکٹر شاکرہ نندنی"

5
چپ تھی فضا، دل پہ کوئی زخم جاں گزاں رہا
آنسو بنے چراغ، ہر اِک غم رواں رہا
اک روشنی تھی، جسم پہ خوابوں کی چھاؤں سی
پر روح کے مکاں میں اندھیرا جواں رہا
سینے پہ دستِ شب تھا، نگاہیں تھیں خامشی
لب پر سکوت، دل میں عجب اِک فغاں رہا

0
5
جب بھی چھایا اندھیرا، ملا تیرا کرم
ڈوبا دل کا سفینہ، بچا تیرا کرم
راہ گم تھی، خرد سو گئی تھی تمام
بن گیا پھر بھی رہبر، سدا تیرا کرم
میں خطا میں گری، تو وفا میں کھڑا
سب سہے، پھر بھی بخشا، رہا تیرا کرم

0
4
شاکرہ کی ڈائری سے ایک اقتباس

7
زن آن نیست کہ در پردۂ شرم گم ہو — زن آن است کہ در خود، خدا کو پہچانے۔

0
5
کہاں لے آئی ہے ہم کو طلب دید کی رات،
خموشی میں بھی دہکتی رہی دل کی ہر بات کے ساتھ۔
بدن وہی ہے مگر روح کی گہرائی کچھ اور،
ملی ہے تازگی، اک عہدِ پرانی حیات کے ساتھ۔
رگوں میں گردشِ امّید پھر جاگ اٹھی ہے،
وصال آیا ہے تقدیر کی نو لمحات کے ساتھ۔

0
7

0
7
خاموش دروازے پہ کچھ راز چھپے بیٹھے ہیں
ہم بھی چپ ہیں، یہ بھی چپ ہے، سبھی چپ بیٹھے ہیں
دیدہ و دل کی زباں پر جو نہ آیا کوئی
لب ہلے بھی تو فقط درد کے شکوے بیٹھے ہیں
کون سنتا ہے صدا دل کی، گماں کیا کیجئے
خامشی میں بھی تو کچھ شور کے ذرے بیٹھے ہیں

0
5

0
8
یہ جو تم نے لکھ دیئے ہیں
میرے جسم پہ قاعدے، قانون
میرے ہاتھ پہ باندھ دی ہیں
شریعتیں، مصلحتیں، خموشیاں
میرے ہونٹوں پہ رکھ دی ہے
تم نے اپنی غیرت کی مہر

0
7
میرا نام شاکرہ نندنی ہے۔ میں ماڈل ہوں، مصنفہ ہوں، اور اس وجود کی مسافر ہوں جسے دنیا نے کبھی صرف بدن جانا، اور میں نے روح بنا کر تراشا۔ میری زندگی نہ صرف ان گلیوں سے گزری ہے جہاں روشنی ہوتی ہے، بلکہ اُن اندھیروں سے بھی جن میں لمس اور تنہائی کی چیخیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوتی ہیں۔

0
7
سفید لباس میں وقار لیے بیٹھی ہوں
میں عکسِ وقت کی دیوار لیے بیٹھی ہوں
لبوں پہ خامشی، آنکھوں میں روشنی ہے مری
میں اپنی ذات کا اظہار لیے بیٹھی ہوں
نہ کوئی تاج، نہ دستار کی ہوس مجھ کو
میں سر پہ حرف کا سنگھار لیے بیٹھی ہوں

0
8
تاریخ کے اوراق پر جب ہم پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کی جھلک دیکھتے ہیں تو چند نام آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق نظر آتے ہیں۔ انہی میں سرِفہرست ہیں محترمہ طاہرہ مظہر علی (ڈاکٹر شاکرہ نندنی کی نانی)، جنہوں نے 1950 میں ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی—یہ ملک کی پہلی آزاد اور غیر حکومتی خواتین تنظیم تھی۔ محترمہ طاہرہ مظہر علی نے خواتین کی آواز کو طاقت دی، مزدور طبقے کی خواتین کو تنظیمی قوت بخشی اور اپنے عمل، فکر اور جرأت سے خواتین کے حقوق کی بنیادیں استوار کیں۔

0
6
وجودِ زن کوئی مے و مینا کا ساحل نہیں ہے
حیا ہو یا کہ عقل، پردہ تو محمل نہیں ہے
جو آزادی ہو صرفِ جام و ساگر میں ظاہر
تو ایسی روش کو فخرِ عقلِ کامل نہیں ہے
نہ کپڑوں کی نمائش ہے نشانی حریت کی
یہی ہے بس؟ تو پھر یہ نعرہ شامل نہیں ہے

0
7
تُو نے پوچھا دل کا ہنگامہ، صدا آئی ضرور
ہنس کے بولا رب کہ تیرا درد کچھ اور تھا
تو تھا نگرانِ جاں، مگر آنکھوں پہ چھا گئی نقاب
جو تھا مکینِ نور، تیرا شوق کچھ اور تھا
فلک، ستارے، ماہتاب، تیرے ارادے کی طلب
مگر تری نظر کا مرکز، ایک حجرہ کچھ اور تھا

0
5

0
13
ننگے بدن تھے، مگر دل لباسوں میں تھا
ہر لمس اک راز تھا، جو پیاسوں میں تھا
چاندنی رات تھی، اور ہوا نے کہا
یہ لمحہ فقط تیری سانسوں میں تھا
دھڑکنوں میں چھپی تھی کوئی راگنی
اک خیالوں کا ساز، جو یاسوں میں تھا

0
6
آئینہ جب سچ دکھاتا ہے، تو نظر نہیں، ہمت چاہیے دیکھنے کے لیے۔ — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
5
وہ رات خواب نہ تھی، لیکن خوابوں جیسی تھی۔ چاندنی اپنے ہلکے سوتی آنچل سے ہمارے وجودوں کو تھپک رہی تھی۔ فضا میں کوئی شور نہ تھا، بس خامشی کی وہ زبان گونج رہی تھی جو صرف دو دلوں کی بےلباس دھڑکنیں سمجھ سکتی ہیں۔ اُس نے کچھ نہ کہا، میں نے کچھ نہ پوچھا، مگر جسموں کے درمیان جیسے کوئی پرانا وعدہ پورا ہو رہا تھا — بغیر زبان، بغیر آواز، صرف لمس کے اعتبار سے۔

0
8
نظر جو خود پہ پڑی، تو رازِ جہاں کھلا
وہ ایک آنکھ جو جاگے، تو ہر طرف صدا
یہ کائنات نہیں، تو خود ہے ایک کتاب
کہ جس کا ہر ورقِ خاموش، ہے خودی کا نقشِ پا
تو جانتا نہیں، جو تو نے خوف سے چھپایا
وہی ہے تجھ میں چھپا، وہی ہے تیرا خدا

0
10
"عورت کا جسم اگر بازار میں بکتا ہے، تو قصور اس کا نہیں جو بکتی ہے، قصور اس کا ہے جو قیمت لگاتا ہے — اور خاموشی سے خرید لیتا ہے۔" ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
6
آگ دل میں تھی، آتشدان میں تھی، روشنی بنی
باہر آئی تو وہی آگ، خاکستر کی کہانی بنی
رنگ و نور میں لپٹی ہوئی تھی خواہشوں کی راکھ
بس ایک نظر نے فریب دیا، ہر شے فانی بنی
نہ عشق رہا، نہ الفت رہی، فقط جسموں کا میل
کہاں گئے وہ وعدے، جو روح کی روانی بنی؟

0
9
از لاہور تا لالہ‌زارِ فکر، میں نے ہر دھڑکن میں پیار دیکھا

0
13
Aruuz.com میں ایک ایسا فیچر شامل کیا جا سکتا ہے جو شاعروں کو تخلیقی مشورے فراہم کرے، جیسے کہ مخصوص بحر یا قافیے پر مبنی اشعار کی تجاویز، تاکہ نئے خیالات کی تحریک ملے۔

0
7
میں اب وہ نہیں رہی جو کبھی آزادی کی علامت تھی—میں اب وہ ہوں جو غلامی کا زیور پہن کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
6
"جس مقام کو تم محض گوشت کا ایک ٹکڑا سمجھتے ہو، وہاں تخلیق سجدہ ریز ہے۔ عورت کے وجود کا وہ خاموش مرکز، دنیا کی ہر شُعور یافتہ شے کی جنم بھومی ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
5
مرے بطن میں چھپی ہے تیری جان تک
یہی مقام ہے تیرا، نہ کہ آسمان تک
یہی ہے رُحم، یہی ہے رازِ جاودان
یہیں سے پھیل گیا تیرا سارا جہان تک
دلِ زن میں چھپی ہے روشنی کی اذان
نہ پوچھ مرد سے، آ خبر لے زبان تک

0
9
اپنی خاموشی کی گہرائیوں میں، میں نے اپنی اصل ذات کی گرج سنی۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

8
جب دل ہو رنج و غم کا اسیر، میں پیتی ہوں
اک اشکِ بے صدا کی لکیر، میں پیتی ہوں
چہرے تو روشنی میں نمایاں ضرور ہیں
باطن چھپے اندھیروں میں گیر، میں پیتی ہوں
مسکان کی طلب ہو تو لب خاموش ہیں
اک خواہشِ خموش و فقیر، میں پیتی ہوں

8
اُفق پر چمکنے لگا میرا جوہر،
بنے میرے جذبوں کے طوفاں میں لشکر،
تھپک کر مجھے خواب سے کہہ گیا در،
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔
زمیں میرے قدموں سے کہتی تھی کچھ کر،
فلک میرے جذبوں پہ ہنستا تھا اکثر،

8
رات کا سنّاٹا آہستہ آہستہ میری سانسوں میں اُترتا جا رہا تھا۔ کھڑکی کے پار چاندنی چھن چھن کر فرش پر بکھر رہی تھی اور میرا بدن جیسے اُس چاندنی کے لمس سے لرز رہا تھا۔ میں وہی پرانی سی شاکرہ ہوں — مگر آج کی رات کچھ اور ہے۔ کچھ ایسا جو صرف جسم کے آس پاس نہیں، روح کی دراڑوں میں جا کر ٹھہرتا ہے۔ تم یاد آتے ہو... ایک ایسی شدت سے، کہ یاد بھی بدن بن جائے۔

9
کہاں ہوں میں؟ یہ سوچوں تو ہنسی آتی ہے
تمھاری ایک جھلک ہر پل مجھے یاد آتی ہے
کبھی خوابوں میں آ کر تم صدا دیتے ہو
کبھی خاموش راتوں میں خلش یاد آتی ہے
میں اک سنسا سا گھر ہوں، تم ہو جیسے جگنو
ہوا چلتی ہے تو تمھاری خوشبو یاد آتی ہے

9
میں لاہور میں پیدا ہوئی، جہاں کی ثقافت نے میرے فن اور سوچ کو پروان چڑھایا۔ آج میں پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں، جہاں بطور ادیبہ اور شاعرہ اپنی زندگی کے رنگ بکھیر رہی ہوں۔ میری زندگی کا سفر دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے، جس میں میں نے ماڈلنگ اسکول میں سینئر ڈائریکٹر کے طور پر نئے فنکاروں کو رہنمائی دی اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا۔

9
میں نے محبت میں جینے کا مفہوم پا لیا
ہر روٹھے دل کو ہنسی دے کے اپنا بنا لیا
جو رو کے بھی نہ مٹا سکا دل کا درد کوئی
میں نے ہنسی کی اوٹ میں غم کو چھپا لیا
کسی کی آنکھ کا آنسو، کسی کا دردِ جاں
میں نے ہر ایک دکھ کو دل سے لگا لیا

8
حجاب
حجاب میں چھپی ہے دنیا کی حقیقت کہیں
پوشیدہ ہے جو، وہی ہے اصل معرفت کہیں
بے نقاب ہو جو چہرہ، اُس میں چُھپا ہے دھوکہ
عقل کو سمجھ لے وہی، جو پڑھے رازِ حقیقت کہیں
روح کا ہے یہ جسم ،حجابِ دنیا کے سنگ

11
ہمیں دے دو تھوڑی آزادی کا دِیا،
جو پنجرے میں ہیں، انہیں توڑنے دے
جو نہ سمجھ سکے کبھی دل کی بات،
ان کو چھوڑ دو، بس کچھ سننے دے
محبت کے نام پہ جو روکے راستہ،
ان کے قید میں ہمیں بند ہونے دے

9
چاندنی شب میں دِل کی بے خودی کا حال دیکھ
اِک نگاہ میں مستی و تابندگی کا حال دیکھ
گُلبدن کی نرم آغوشی میں کیف کی لَہر
سوز و سازِ دِل کی بے چارگی کا حال دیکھ
آنکھوں آنکھوں میں محبت کا اشارہ ہو چلا
خامشی میں بھی نظر کی چپ لَبی کا حال دیکھ

8
"میں نے اپنے باطن کی روشنی سے خود کو پہچانا ہے، اور اسی روشنی میں عورت کی نئی تعریف تراشی ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

9
دل کی دہلیز پہ کچھ راز چمکتے دیکھے
ہم نے اس شب ترے انداز چمکتے دیکھے
تیری آہٹ نے جلایا مرے جذبوں کا چراغ
اور پھر جسم میں الفاظ چمکتے دیکھے
تو نے جو سانس میں رکھا تھا کوئی آہنگِ جنوں
ہم نے آواز میں ساز چمکتے دیکھے

9
دل کی زمیں پہ وقت کا نقشِ خزاں بھی ہے
اک نازک آئینہ ہوں، مگر آسماں بھی ہے
عشقِ حقیقی ہو کہ ہو دل کا فسانہ بس
اک درد ایسا ہے جو ہر دل میں جاں بھی ہے
یہ شہر تیرے لوگ، تری رسم و راہ ہے
گاؤں میں ہوتا تو فقط تُو مکاں بھی ہے

0
9
وقت کا سب سے بڑا راز ہے "اب"،
کل کی اُمید نہ رکھ، کر عمل کا سبب۔
جو سوال اٹھے دل کے آئینے میں،
وہی ہے چراغ تری سینے میں۔
سوچ، وہ مشعل ہے راہوں کی،
یہی ہے کُلیاتِ شاہوں کی۔

0
8
"انسان محض مٹی سے اٹھا ایک پیکر نہیں، بلکہ شعور، انتخاب اور امانت کا مسافر ہے — جو اگر خود کو پہچان لے، تو زمین پر روشنی بکھیر سکتا ہے۔" ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
9
حجاب میں چھپی ہے دنیا کی حقیقت کہیں
پوشیدہ ہے جو، وہی ہے اصل معرفت کہیں
بے نقاب ہو جو چہرہ، اُس میں چُھپا ہے دھوکہ
عقل کو سمجھ لے وہی، جو پڑھے رازِ حقیقت کہیں
روح کا ہے یہ جسم حجابِ دنیا کے سنگ
جو سمجھے دل کی بات، بنے وہی رہبرِ ہدایت کہیں

0
9
کسی نے وعدہ کیا تھا دوام کا، گیا وہ لمحوں میں
میں وقت بانٹتی رہی، وہ بکھر گیا پلوں میں
مجھے خبر نہ تھی، یہ بدن بھی اک سند ہوتا ہے
وہ چھو کے لوٹ بھی آیا، مگر رہا دُور سایوں میں
میں خواب بیچتی رہی ہوں وفا کے بازار میں
وہ تولتا رہا مجھے، کسی اور کی وفاؤں میں

0
7
یہ دنیا ہے فقط اک خواب، جاگا جس نے وہی کامیاب نکلا
جو بکتا خواہشوں کے ہاتھ، وہی محروم و خوار نکلا
امیری ہے فقط اک آزمائش، فقیری راز کی دولت
کسی کو تاج، کسی کو درد، ہر اک کو اپنا حساب نکلا
غریبوں کی دعاؤں میں وہ حرارت، جو محل میں کب ہو پاتی
سنے جس کو سحر کا نعرہ، وہی شب میں آفتاب نکلا

0
9
آگ دل میں تھی، آتشدان میں تھی، روشنی بنی
باہر آئی تو وہی آگ، خاکستر کی کہانی بنی
رنگ و نور میں لپٹی ہوئی تھی خواہشوں کی راکھ
بس ایک نظر نے فریب دیا، ہر شے فانی بنی
نہ عشق رہا، نہ الفت رہی، فقط جسموں کا میل
کہاں گئے وہ وعدے، جو روح کی روانی بنی؟

0
8
خودی کو بیچ کے پایا بدن کا تاج میں نے
مگر سکوں نہ ملا، چاہ تھی جو آج میں نے
نظر کو جلوہ ملا، دل کو مگر جلا پایا
نگاہِ خلق کا صدقہ لیا، سناج میں نے
حسن کو آئینہ سمجھا، نفس کو راہنما
خودی کو بیچ کے چمکا ہر اک سماج میں نے

0
10
نقاب میں نہ چھپاؤ مری خودی کا جمال
میں آئینہ ہوں، مری آنکھ ہے کمال و وصال
نہ صرف حسن کی تصویر ہوں، نہ جسم کی بات
میں اک خیالِ جلیل، اک زمانہ سوال
میں آدمی کی طرح ہوں خدا سے جُڑی ہوئی
مری وفا میں بھی پنہاں ہے ذاتِ ذوالجلال

0
9
کیا تجھے خبر ہے تُو کون ہے؟
ذرّہ نہیں، تو سماں ہے، تُو کون ہے؟
خاک میں پوشیدہ راز ہے تیرا،
نور سے لبریز ساز ہے تیرا۔
مٹی سے اُبھرا ہے تُو بے سبب؟
یا ہے کوئی مقصدِ جاں طلب؟

9
دل اگر بےنور ہو جائے تو آنکھوں کی بینائی فقط ایک دھوکہ ہے؛ روشنی وہی ہے جو اندر سے چمکے، ورنہ ہر چمک فریب ہے۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
8
دلوں میں خواب ہے، آنکھوں میں دھواں کیوں ہے؟
ہر ایک چہرہ یہاں آئینہ خواں کیوں ہے؟
لبوں پہ ذکرِ ہُدیٰ، دل میں نفس کا شور
یہ خود فریبیٔ آدم کا جہاں کیوں ہے؟
جو زہر بانٹتے پھرتے ہیں حکمتوں کے نام
وہی تو فخرِ زمانہ، وہی امامان کیوں ہے؟

0
8
تو کہتا ہے خواب گرے، ساز بجے نہ نغمہ بنے،
کیا ساز تیرے ہاتھ میں تھا؟ یا تُو خود ہی بے دَم بنے؟
تو چاہتا تھا بہار چلے، اور زخم بھی نہ لگیں تجھے،
پھر کس نے تجھے یہ بتایا کہ گلزار میں کانٹے نہیں؟
دنیا کو تو نے سمجھا کیا؟ ایک ہنسی کا میدان فقط؟
یہ کائنات ہے کرب کا فن، یہ زندگی ہے ایک فنونِ ضبط۔

0
6
کبھی خواب بنتی تھی دنیا، کبھی ساز و نغمہ کی محفل،
اب ہر ایک دل ہے خموش، ہر نظر ہے گہری و مضمحل۔
کہاں وہ صبحیں کہ نرماہٹ میں چپکے راز چھپے ہوتے،
کہاں وہ شامیں کہ تنہائی میں بھی کچھ ساز بجے ہوتے؟
کہاں گئی وہ ہنسی فضا کی؟ وہ نرمی، وہ چہکار کہاں؟
ہر شے میں کیوں اک بیزاری ہے؟ ہر منظر میں انکار کہاں؟

0
9
اُٹھا زمانہ، صدا دے رہا ہے نور کی بات
تلاش کر دل میں تو پائے گا حضور کی بات
خودی کو کر بلند، مت رُک ظہور کی راہ
سکھائے گی تجھ کو بھی بادِ صبور کی بات
نہ دیکھ ظاہر کو، باطن کا راز کھلتا ہے
حقیقتوں میں چھپی ہے سُرور کی بات

0
9
صبر وہ خاموش دعا ہے جو وقت کے کانوں تک بے آواز پہنچتی ہے، اور پھر زندگی کو نئے معنی دے دیتی ہے۔ — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

8
عورت کوئی ٹکڑا نہیں جو مرد میں تکمیل تلاش کرے؛ وہ خود میں ایک مکمل کائنات ہے، جو فطرت کے توازن کا عکس ہے۔ — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
7
"وقت نہ سایہ ہے، نہ روشنی — یہ ایک خاموش دروازہ ہے جو ہر لمحہ کھلتا ہے۔ جو دیکھ لے، وہ گزر جانے سے پہلے خود کو پا لیتا ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
8
وہ دروازے کے پاس کھڑی ہے —

0
7
وہ نظر، جیسے خاموش پیغام ہو
اک چھپی داستاں، ایک ہنگام ہو
پھر وہ پلکوں کی لرزش، وہ لب کی خموش
جیسے سب کچھ کہا، جیسے کچھ بھی نہ ہو
گردنِ ناز پر جھک کے ٹھہرا ہوا
چاند بھی دیکھتا، خود سے حیران ہو

0
8
"جب زندگی کی رات گہری ہو جائے تو یاد رکھو، روشنی تمہارے اندر جلنے کو بےتاب ہے، بس اسے پکارنے کی دیر ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
8
"زندگی کا راستہ صرف جسمانی سفر نہیں، بلکہ ایک اخلاقی اور فکری ارتقاء ہے، جس میں ہر قدم سوال، تسلیم اور رہنمائی کی تلاش ہے۔ اس سفر کا مقصد صرف منزل تک پہنچنا نہیں، بلکہ وہ راستہ تلاش کرنا ہے جو دل، دماغ اور ضمیر کو ہم آہنگ کرے، اور یہ روشنی پھر دوسروں تک پہنچا کر انسانیت کا حقیقی مقصد پورا ہو۔"  یہ فلسفہ "سورۃ الفاتحہ" سے متاثر ہو کر اُبھرا ہے، جہاں انسان اپنی رہنمائی اور راستے کی تلاش کے لیے اللہ کی ہدایت کو تسلیم کرتا ہے۔ —ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
8
ہم سفر بھی نہ تھے، ہم نوا بھی نہ تھے
پاس رہ کر بھی ہم آشنا بھی نہ تھے
دل نے ہر گام پر درد کو چُنا
خواب تھے پر کہیں خواب سا بھی نہ تھے
آرزو ہاتھ میں خاک ہوتی رہی
کبھی قسمت کے ہم نقش پا بھی نہ تھے

0
8
"شعور وہ چراغ ہے جو تاریک راہوں میں منزل کی نشاندہی کرتا ہے؛ جس دل میں یہ چراغ نہ ہو، وہ خواہ کتنی ہی روشنیوں میں ہو، اندھیروں کا اسیر رہتا ہے۔"

0
8
"جب طاقت خاموشی کے ساتھ سوتی ہے، اور خواہش سیاست کی چادر اوڑھ لیتی ہے — تب سچ یتیم ہو جاتا ہے۔" — ڈاکٹر شاکرہ نندنی

0
7
طلسمِ زر پرستی یعنی ( کرپشن) — یہ لفظ محض چند حروف کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک ایسی بےرحم صداقت ہے، جو کسی گلی کوچے، کسی ایوانِ اقتدار یا کسی ادارے کی چاردیواری سے منسلک نہیں رہتی۔ یہ وہ ناسور ہے جو انسان کے باطن میں جنم لیتا ہے، ضمیر کو خاموش کرتا ہے، اور شعور کی شمع بجھا دیتا ہے۔

0
8
یہ کیسا زہر ہے
جو لفظوں میں گھلتا ہے
خامشی کو چیخ میں،
اور چیخ کو خامشی میں بدل دیتا ہے۔
یہ اختلاف نہیں،
یہ فاصلہ ہے —

10
ہم ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں، جہاں نخلستان کے پانی میں ہمارا عکس امید اور خطرے، دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے سامنے صحرا پھیلا ہوا ہے، ایک ایسی تشبیہ جو ہم نے اپنی زمین پر بربادی کی شکل میں تخلیق کی ہے۔ مگر اسی بے رحم منظرنامے میں ایک نخلستان بھی ہے—استقامت، باہمی ربط، اور تجدید کی امید کی علامت۔ مگر یہ نخلستان محض ایک زمینی حقیقت نہیں، بلکہ ایک ذہنی کیفیت ہے، ایک سوچ کا زاویہ، جو ہمیں اپنے ماحول اور ایک دوسرے سے تعلقات کی نئی تفہیم عطا کرتا ہے۔

0
10
سبز دھند میں لپٹا ہوا ایک خواب تھا، ایک ایسا خواب جس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ پانی کے اس پرسکون آئینے میں، جہاں ہر لہر کے ساتھ کوئی راز چھپتا ہوا محسوس ہوتا ہے، ایک دیوی نے قدم رکھا۔ یہ دیوی کسی اور دنیا سے آئی ہوئی معلوم ہوتی تھی، جیسے قدرت نے اپنی سب سے حسین تخلیق کو خاموشی سے اس دنیا کے حوالے کر دیا ہو۔

0
18
مشرقی  خواتین کے رویوں میں جنسی رجحانات کا اضافہ ایک پیچیدہ اور گہرے مطالعے کا موضوع ہے، جس کی وجوہات مختلف معاشرتی، اخلاقی اور تکنیکی عوامل سے جڑی ہیں۔ یہ رجحانات ان ممالک کی روایات اور اقدار کے پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے، جہاں خواتین کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی آزادی محدود ہے۔

27
خاموشی فطرت کا وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنی روح کی گہرائیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ سکوت میں چھپی صدائیں ہی اصل حقیقت کی گواہی دیتی ہیں۔ — ڈاکٹر شاکرہ  نندنی

0
16
تبریز کی وہ گلیاں، جو صدیوں پرانی کہانیوں کی گواہ تھیں، ان میں دو دل چھپے ہوئے تھے، جو ایک دوسرے کو پہچاننے سے پہلے، خود کو ڈھونڈھنے کی تلاش میں تھے۔ فریبہ اور آفرین، دونوں کی تقدیر میں کچھ ایسا تھا کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر رہتیں، جیسے ایک مصلحت کی چادر میں لپٹے ہوئے، اور ان کے دلوں میں ایک ایسی آگ تھی جو وقت کی بندشوں کے باوجود مسلسل دہک رہی تھی۔

17
خودکشی ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں افراد، خاندانوں اور معاشروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا ایک شعوری عمل ہے، جو عام طور پر نفسیاتی، سماجی اور ماحولیاتی عوامل کے امتزاج کا نتیجہ ہوتا ہے۔ خودکشی کو سمجھنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے جو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے اور ذہنی صحت سے آگاہی، روک تھام کی حکمت عملیوں اور مددگار نظاموں پر زور دے۔

14
کہیں دور ایک خاموش سا منظر
جہاں ہوا سانس لیتی ہے دھیرے دھیرے
اور دھوپ اپنے سنہرے پر پھیلائے
پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوتی ہے
ایک پرندہ، بے نیاز
کھلی فضاؤں میں محوِ پرواز

18
محبت، وہ لطیف احساس ہے جو ہر جاندار کے وجود میں بہتا ایک خاموش دریا ہے۔ کبھی یہ نرمی سے دلوں میں اترتی ہے، تو کبھی طوفان کی مانند سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے۔ یہ وہ نغمہ ہے جسے نہ کوئی ساز درکار ہوتا ہے، نہ ہی کسی زبان کی محتاجی ہوتی ہے۔

22
محفل کے ہنگامے میں، شور و شرابا ہے
رنگوں کی برسات میں، دل بھی بھٹکتا ہے
زندگی کے پیچ و خم، ناچتی زنجیر ہے
ہر اک چہرہ، اک کہانی، کوئی تصویر ہے
مسکان لبوں پر ہے، پر دل میں اندھیرا
روشنی میں چھپے ہیں، سایوں کا بسیرا

13
دھڑکنوں کا شور تھا، جسموں کا میل تھا
شوق کا جنوں تھا اور لمس کا کھیل تھا
چمکتے بدن کی مہک، رات کا فسوں
لبوں کی گرمیوں میں چھپا کوئی دل کا زخم تھا
نگاہوں کی چمک، دلوں کا ہجوم تھا
کہیں ہوس کا رقص، کہیں سکون کا جھوم تھا

14
گال پہ بہتا ہوا خاموش سا قطرہ
دل کی گہرائیوں کا اک خفیف آئینہ
آنکھ کی دہلیز پر، درد کی شبنم
خاموشی میں بولے، گمشدہ سا عالم
سانسوں کی سرگم میں، دکھ کا ترانہ
حسرتوں کے جنگل میں، اداسی کا خزانہ

14
خدمتِ انسانیت ایک عظیم فریضہ اور زندگی کا بہترین مقصد ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو انسان کو دوسروں کے دلوں میں بسانے کے ساتھ ساتھ دنیا میں نیکی کے چراغ روشن کرتا ہے۔ اس کا فلسفہ نہ صرف ہمارے مذہبی عقائد بلکہ انسانی اخلاقیات کا بھی اہم جزو ہے۔

34
سخت سردی میں کابل کی تیز ہوا گل بانو کی چادر کو جھنجھوڑ رہی تھی۔ وہ اس میں مزید سمٹ گئی، اس کا دل پسلیوں کے پنجرے میں خوف سے دھڑک رہا تھا۔ طالبان کا سایہ ہر سو منڈلا رہا تھا، اس کے خواب، اس کی روح سب گھٹن کا شکار تھے۔ فرار ہی واحد راستہ تھا، ایک نامعلوم مستقبل کی طرف بے بس سفر۔ ممبئی، ایک شہر جس کا ذکر سرگوشیوں میں ہوتا، اندھیرے میں امید کی ایک کرن، اس کا مقدر بن گیا۔ ایک پرانی فلمی اداکارہ کی تصویر اور دل میں ایک دعا لیے، وہ ایک خستہ حال بس میں سوار ہوگئی، وہ گھر چھوڑ کر جسے اس نے ہمیشہ اپنا سمجھا تھا۔

13
محبت کے رنگوں میں بھیگا بدن ہے
سمندر کی موجوں میں مستی چھلن ہے
ہوا نے بکھیرے یہ زلفوں کے گیسو
کہ جیسے فلک پر کوئی انجمن ہے
یہ موسم، یہ ساحل، یہ بہتی ہوائیں
تمہاری نگاہوں میں مستی کا فن ہے

21
چلتی ہوا میں خواب بکھرتے، لمحے سہانے روٹھ گئے
تقدیر کے یہ رنگ تھے شاید، کچھ راز جانے روٹھ گئے
سورج کی لو میں رقص تھا سایہ، بادل نے دل کی بات کہی
دھوپ کی گلی میں شام سمٹ کر، سب درد پرانے روٹھ گئے
صحرا کی وسعت، آتش کے شعلے، اور ایک نسیمِ نرم خرام
پیمان تھے جو چاند نے باندھے، وہ خواب ستمگر روٹھ گئے

12
حُسْنِ نِسْوَانِیَّتْ کا وَقَارْ اور کیا؟
یہ وَقَارِ وَفَا کا نِخَارْ اور کیا؟
نَہ یہ رَنْگْ و رُوپ، نَہ گَیْسُو کی بَاتْ،
یہ وَقَارْ و حَیَا کا دِیَارْ اور کیا؟
سَچَّائِی کے مُوْتِی بَکْھیرے جو لَبْ،
ایسا رَنْگِ وَفَا کا سَنْگَارْ اور کیا؟

19
بھوک سے بلکتی گلیوں میں، چہروں پر ویرانی ہے،
زندگی کی اجڑی راہوں میں، دُکھ کی اک کہانی ہے۔
کچھ محلوں میں جشن سجے ہیں، روشنی ہے، نغمے ہیں،
کچھ جھونپڑیاں سونی سونی، خالی ہاتھ، آنسو ہیں۔
چند گھروں میں نعمت بکھری، کھانے والے سیر ہوئے،
کچھ مجبوروں کے بچوں نے، پانی پی کے خواب بُنے۔

1
32