صاحبِ نظر!
عجب ماجرا ہے، کہ جس سرزمین میں مرد کو خلعتِ حاکمیت بخشا گیا، وہاں عورت کو گویا مِلکِ غیر جانا گیا۔ اُس کا وجود، گو دلنشیں و پر سوز ہے، مگر اُس کی مرضی کو رتی برابر بھی وقعت نہیں دی جاتی۔ وہ شے ہے، جاگیر ہے، مملوکِ مرد ہے؛ اور ہم ہی وہ ہیں کہ جو طے کرتے ہیں کہ اُس کے جسم کا تصرّف کس کو حاصل ہو، اور اُس کے نکاح کی رسم کن ہاتھوں انجام پائے۔
محبت؟ ارے صاحب، یہ تو کبھی کسی کے کہنے سے ممکن نہ ہوئی، اور نہ ہی ہوگی۔ مگر ہم ہی وہ اہلِ دبدبہ ہیں کہ جو فرماتے ہیں: "فلاں کو دل میں جاگیر کرو، اور فلاں کو ترک کر دو!" اُس کی روح ہو یا تن، ہر گوشہ ہم سے منسلک ہے۔ جب جی چاہے، اُسے شبستان میں بلائیں، اور جب طبیعت پر غلبہ ہو، تو اُس کی روح میں دانت گاڑ دیں۔ وہ ماں بنے گی یا نہیں، یہ بھی ہمارے اشارۂ ابرو پر موقوف ہے۔
اے عزیز! اگر وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوٹھے کی راہ پکڑے، تو ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اُس کی قیمت طے کریں گے، اور خود ہی گاہک بھی ہوں گے۔ ہم کو اختیار ہے کہ اُس کے جسم کو مالِ تجارت بنائیں، اور اُس کے لب و رخسار کو کریم و صابن کے اشتہار میں پیش کریں۔ اُس کی آنکھوں، زلفوں، اور چال سے بازار گرم کریں، اور نفع کمائیں۔
مزید برآں، اگر وہ علم کی خواہاں ہو، مدرسے کا قصد کرے، اپنے خالق سے اپنا رشتہ جوڑے، اور مساوات کی بات چھیڑے — تو وہ سرکش کہلاتی ہے۔ ہم، جو اُس کے بھائی بھی ہیں، اُسے وراثت سے محروم رکھیں؛ اور اگر وہ شوہر کو "مجازی خدا" نہ مانے، تو ہم اُسے بے حیا گردانیں۔
صاحب، حقیقت تو یہ ہے کہ جو عورت اپنی محنت کا بدل مانگے، اپنے جسم پہ حق جتائے، یا ذرا سا سوال بھی کر بیٹھے، وہ ہماری نگاہ میں فاحشہ بن جاتی ہے۔ عجب مذاق ہے! گویا اُس کی عقل، اُس کی مرضی، اور اُس کا شعور، کسی شمار میں نہیں۔ وہ فقط ایک جامِ شراب ہے، کہ جسے ہم اپنی پیاس بجھانے کو رکھتے ہیں۔
ایسا نوحہ ہے، جو ہر ذی شعور دل کو لرزا دیتا ہے — اور اگرچہ یہ تحریر محض ایک عرضداشت ہے، مگر اس میں ہر وہ درد پوشیدہ ہے جو صدیوں سے عورت کے حصے میں آیا۔ اب وقت آیا ہے کہ ہم یہ طے کریں کہ عورت کوئی مِلکِ طبعی نہیں، بلکہ وہ بھی اسی خالقِ اکبر کی صناعی ہے، جس نے ہمیں بنایا۔ اُسے جینے کا حق ہے، اپنی چاہ سے، اپنے رنگ سے، اور اپنے فکر سے۔
اللٰہ پاک ہمیں بصیرت عطا کرے۔
خاکسار: ڈاکٹر شاکرہ نندنی شاکرہ
معلومات