خودی کو بیچ کے پایا بدن کا تاج میں نے |
مگر سکوں نہ ملا، چاہ تھی جو آج میں نے |
نظر کو جلوہ ملا، دل کو مگر جلا پایا |
نگاہِ خلق کا صدقہ لیا، سناج میں نے |
حسن کو آئینہ سمجھا، نفس کو راہنما |
خودی کو بیچ کے چمکا ہر اک سماج میں نے |
خدا سے دور رہی، عکس کو رب جانا |
چھپا کے سچ کو رکھا ہر نئے رواج میں نے |
جہاں کی شہرت و دولت پہ فخر کرتی رہی |
بکھر گئی تھی مگر جب کھُلا مزاج میں نے |
لبوں پہ ذکر تھا میرا، بدن تھا خاص تمہید |
مگر سکون نہ ملا لاکھ کی معراج میں نے |
غرور، فتنہ، ہوس — یہ میرے سنگ رہے |
کیا خاک پا سکا دل میں وہ معراج میں نے؟ |
اک اشک گِرا تو بند در وا ہوئے |
خُدا کو پایا جب توڑا ہر احتجاج میں نے |
اب آئینہ نہیں، دل ہے مرا معیارِ جمال |
بدن سے باطن تلک دیکھا نیا سماج میں نے |
شاکرہ اب نئی صبحوں کی جستجو میں ہے |
خودی کی روشنی میں بدلا ہر سماج میں نے |
معلومات