| دل کی دہلیز پہ کچھ راز چمکتے دیکھے |
| ہم نے اس شب ترے انداز چمکتے دیکھے |
| تیری آہٹ نے جلایا مرے جذبوں کا چراغ |
| اور پھر جسم میں الفاظ چمکتے دیکھے |
| تو نے جو سانس میں رکھا تھا کوئی آہنگِ جنوں |
| ہم نے آواز میں ساز چمکتے دیکھے |
| کون لے آیا تھا ہونٹوں پہ وہ شدت کی مہک |
| ہم نے نرگس میں وہ ناز چمکتے دیکھے |
| کاش وہ رات کبھی لوٹ کے پھر آئے شاکرہ |
| ہم نے آنکھوں میں وہ پرواز چمکتے دیکھے |
معلومات