اُفق پر چمکنے لگا میرا جوہر، |
بنے میرے جذبوں کے طوفاں میں لشکر، |
تھپک کر مجھے خواب سے کہہ گیا در، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
زمیں میرے قدموں سے کہتی تھی کچھ کر، |
فلک میرے جذبوں پہ ہنستا تھا اکثر، |
میں پہنچی تھی تابندہ شعوروں کے بستر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
تھے شعلے مرے لفظ، روشن ہنر، |
جگاتی تھی ہر دل میں اک نو سحر، |
مگر چپ کرا دی گئی میری نظر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
بنے جو میرے ہم قدم، وہ بدل کر، |
ہوئے میرے سائے سے بھی بے خبر، |
رہی میری آنکھوں میں بس ایک سحر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
میں آواز تھی اپنے کل کی سحر، |
میں پہچان تھی اک نئی راہ گزر، |
مگر بیچ ڈالا گیا میرا ہنر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
مرا علم اب محوِ نیلام ہے، |
مرے خواب کا خون ہر شام ہے، |
نہ باقی رہی کوئی روشن خبر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
میں اب حاکمِ بے ضمیرِ وطن ہوں، |
نہ دشمن سے کمتر، نہ اپنوں کا تن ہوں، |
میں اب زخم دیتی ہوں بن کر نکھر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
جو بولے شعور کی باتیں کبھی، |
وہ پاتے ہیں زنجیر کا اک اثر، |
میں کرتی ہوں ان کو ستم سے بسر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
تمہیں چاہیے گر مرا ساتھ دینا، |
تو سیکھو کہ کیسے ضمیر کو سینا، |
نہ پوچھو کبھی حق، نہ دیکھو اثر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
اگر تم ہو سچے، اگر ہو باخبر، |
تو آؤ مرے سامنے لے کے نظر، |
کہ یا میں مٹ جائوں، یا تم ہو سحر، |
پہن لیا میں نے غلامی کا زیور۔ |
معلومات