ایک عورت کی خاموش اذیت پر مبنی ایک گہرا مراقبہ، جہاں حسن ایک بوجھ بن جاتا ہے اور خاموشی لفظوں سے بلند چیخ بن کر ابھرتی ہے۔ "ڈاکٹر شاکرہ نندنی"


رات کا ایک لمحہ ہوتا ہے جب کائنات اپنے سب راز سمیٹ کر ایک عورت کی خاموش آنکھوں میں اتر آتی ہے۔ یہ تصویر بھی اُسی لمحے کا عکس ہے—ایک عورت، تنہا، ایک نرم فرشی چادر پر لیٹی ہوئی، گہرے سائے اور مدھم روشنیوں کے درمیان۔ اُس کے چہرے پر اداسی کا عکس ہے، اور جسم پر وہ سب لفظ جو کبھی بولے نہیں گئے۔ ایک سرخ لباس، جو شاید محبت کی آخری نشانی ہے۔ اور اُس کے اردگرد پھیلی ہوئی تاریکی… جو اُس کی خاموش چیخ کی گواہ ہے۔


یہ تصویر محض ایک جسم نہیں دکھاتی، یہ وقت کے ایک زخم کو کھولتی ہے۔ وہ لمحہ جب عورت خود کو آئینے میں دیکھتی ہے اور پوچھتی ہے: "کیا میں فقط جسم ہوں؟ یا میری روح کا بھی کوئی حوالہ باقی ہے؟" اُس کی بند پلکیں، جیسے ماضی کے درد کو سہنے کی آخری کوشش میں مچل رہی ہوں۔ وہ لمحہ جب کسی نے اُسے چاہا، شاید صرف اُس کے بدن کے لیے۔ اور جب جسم بولنا بند کر دے، تب روح چیخنے لگتی ہے۔


محبت جب صرف خواہش میں بدل جائے تو بدن کا لمس روح کو چھلنی کر دیتا ہے۔ وہ جو دیکھنے والے کے لیے "حسن" ہے، اُس کے لیے شاید صرف "بوجھ" بن جاتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کوئی اُس کی آنکھوں میں جھانک کر اُس کے اندر کے طوفان کو سمجھے، مگر لوگ صرف لباس اُتارنا جانتے ہیں، جذبات نہیں۔ اُس کی گہری سانسوں میں صرف تھکن ہے، وہ تھکن جو وقت کی بے رحم گرفت میں دبی ہوئی عورت ہر رات اپنے سینے سے لگا کر سوتی ہے۔


تصویر کا ایک کونا بالکل سیاہ ہے، جیسے کوئی حصہ زندگی کا ہو جو مکمل اندھیرے میں دفن ہو چکا ہو۔ اور ایک طرف اُس کا آدھا چہرہ روشن ہے، مگر وہ روشنی بھی سرد ہے، جذبات سے خالی۔ یہی تو تضاد ہے: عورت روشنی میں ہے، مگر اُس کی دنیا اندھیرے میں۔ اُس کا جسم گرم ہے، مگر اُس کی روح برف سے ڈھکی ہوئی۔


یہ تصویر ہر اُس عورت کی کہانی سناتی ہے جو رات کی آغوش میں خود کو سمیٹتی ہے، مگر اندر سے بکھرتی جاتی ہے۔ وہ عورت جو "چاہی" گئی، "سمجھی" نہیں گئی۔ جس کے لمس کو محسوس کیا گیا، مگر اُس کی چیخوں کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ عکس صرف ایک لمحہ نہیں، ایک فلسفہ ہے: کہ عورت صرف وجود نہیں، وہ ایک کائنات ہے۔ اور اگر اُسے صرف جسم سمجھا جائے تو وہ کائنات ٹوٹ جاتی ہے۔


اور جب کائنات ٹوٹتی ہے تو آواز نہیں آتی، صرف ایک خاموشی ہوتی ہے—ایسی خاموشی جو چیخوں سے بھی بلند ہوتی ہے۔


یہ تصویر آنکھوں سے نہیں، دل سے دیکھی جاتی ہے۔ اور جب دل سے دیکھی جائے تو وہ صرف ایک عورت نہیں، ہر اُس روح کی نمائندہ بن جاتی ہے جو تنہائی میں جلتی ہے، مگر روشنی دیتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ سرخ لباس پہن کر لیٹی ہے—کہ کوئی دیکھ سکے کہ درد بھی خوبصورت ہو سکتا ہے، مگر وہ درد پھر بھی درد ہوتا ہے۔


آخر میں…

یہ تصویر صرف ایک عورت کی نہیں، ہر اُس لمحے کی ہے جب ہم کسی کے جسم سے محبت کرتے ہیں، مگر اُس کی روح کو بھول جاتے ہیں۔ اور جب ہم کسی کی روح کو نظر انداز کرتے ہیں، تو ایک تصویر پیدا ہوتی ہے… ایسی تصویر، جو شاعری بن جاتی ہے، اور آنکھوں میں آنسو۔


5