تُو نے پوچھا دل کا ہنگامہ، صدا آئی ضرور
ہنس کے بولا رب کہ تیرا درد کچھ اور تھا
تو تھا نگرانِ جاں، مگر آنکھوں پہ چھا گئی نقاب
جو تھا مکینِ نور، تیرا شوق کچھ اور تھا
فلک، ستارے، ماہتاب، تیرے ارادے کی طلب
مگر تری نظر کا مرکز، ایک حجرہ کچھ اور تھا
کھلی فضا کی تھی تمنا، باندھ لی دیوار میں
تیرے خوابوں کا تمدن، نقش کچھ اور تھا
جو علم تھا وہ نورِ حق تھا، تُو نقابوں میں گم
زندگی کی جستجو میں، راز کچھ اور تھا
بدن کے آئینے میں ڈھونڈے رازِ ذاتِ لا زوال
تیرا حسنِ اصل سے پردہ، عیب کچھ اور تھا
تُو تھا آوازِ حُضور، نغمۂ فطرت کا شعور
تُو مگر ہجومِ آواز میں کچھ اور تھا

0
5