وہ دروازے کے پاس کھڑی ہے —
سرخ ساڑھی میں لپٹی ہوئی، جیسے شام کسی خواب کا آنچل اوڑھ کر آ گئی ہو۔
ساڑھی کا سنہری بارڈر جیسے کسی روایت کا سنبھالا ہوا کنارہ ہو،
اور چہرہ؟ وہ جیسے برسوں سے کسی شانت گیت کی تمثیل ہو۔

ماتھے پر تلک، ایک دائرہ —
نہایت سادہ، مگر پراثر،
جیسے پیشانی پر کسی فلسفے کا پہلا حرف رکھ دیا گیا ہو۔
نظریں نیم خموش، مگر اتنی کہتی ہوئی
کہ لفظوں کی حاجت باقی نہ رہے۔

اس عورت کا کھڑا ہونا —
کوئی اتفاقی لمحہ نہیں،
یہ ایک ترتیب ہے،
جیسے وقت نے خود کو سلیقے سے روک کر
اس تصویر میں سما دیا ہو۔

اس کی گردن جھکی نہیں،
بس تھوڑی سی نرم ہے —
اور وہ نرمی صرف جسم میں نہیں،
سوچ میں ہے،
احساس میں ہے،
اور سب سے بڑھ کر،
اُس خودی میں ہے جو عورت کے جمال کو اس کی آواز سے پہلے نمایاں کرتی ہے۔

اس کے ہاتھ —
جن میں بس ایک سادہ سا فون ہے،
مگر انداز کچھ ایسا جیسے
وہ کوئی راز تھامے ہو،
جیسے کوئی پیغام جو صرف خاموشی سمجھ سکتی ہے۔

ساڑھی کے اندر سے نمودار ہوتا جسم
کسی شدید آرٹ کی مانند —
نہ فحش، نہ مبالغہ،
بس ایک مکمل تخلیق،
جس میں ہر خم کا اپنا سبب ہے،
اور ہر لَے کی اپنی ترتیب۔

وہ کمر، جو ساڑھی کی تہوں میں بھی
اپنا وجود منوا لیتی ہے —
نہایت لطیف، مگر توجہ کھینچ لینے والی۔
ایسا نہیں کہ وہ دکھاتی ہے،
وہ تو صرف موجود ہے —
اور یہی موجودگی ایک تہذیبی جمال کا سب سے قیمتی رنگ ہے۔

جب وہ رُکی —
تو ایسا لگا وقت بھی تھم گیا ہو۔
جب وہ چلی ہو گی،
تو موسموں نے راستہ دیا ہو گا۔

یہ عورت صرف تصویر میں قید نہیں،
یہ ایک خیال ہے —
جسے دیکھا بھی جا سکتا ہے،
سوچا بھی،
اور… محسوس بھی۔

ایسی عورتیں لفظوں سے نہیں لکھی جاتیں،
وہ لَے میں، بدن میں، اور سکوت میں کہانی بن کر اتری ہوئی ہوتی ہیں۔


0
7