یہ جو تم نے لکھ دیئے ہیں
میرے جسم پہ قاعدے، قانون
میرے ہاتھ پہ باندھ دی ہیں
شریعتیں، مصلحتیں، خموشیاں
میرے ہونٹوں پہ رکھ دی ہے
تم نے اپنی غیرت کی مہر
یہ جو تم نے کہا
کہ میں کچھ نہیں، بس اک جسم ہوں
تو سُن!
میں بولوں گی
میں چیخوں گی اپنی آواز میں
نہ تمہارے لہجے کی نرمی میں
نہ تمہارے خول کی جھوٹی حیا میں
میں بولوں گی
اپنی ماں کی دھیمی صدا میں
جو ساری عمر “چُپ” کا وِرد کرتی رہی
میں بولوں گی
اپنی بیٹی کے ننھے سوال میں
جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے پوچھتی ہے:
“امی، کیا میں آزاد ہوں؟”
یہ جو تم نے لکھا
کہ میری رانیں تمہاری میراث ہیں
یہ جو تم نے بولا
کہ میری زلفیں تمہاری سند ہیں
اور میرے پستان، میرے ہونٹ
میرے گال، میری آنکھیں
یہ سب تمہارے فائدے کا سامان ہیں
تو اب سنو—
میرا بدن میرا ہے!
میری سانسیں، میری مرضی
میری خواہش، میرا حق
میں اب سودا نہیں بنوں گی
نہ کسی اشتہار کی تصویر
نہ کسی گاہک کی تسکین
نہ کسی منبر کی توبہ
نہ کسی بستر کی چپ چپ
نہ کسی تحفے کی شرط
میں اب روٹی کے عوض
جسم بیچنے والی ماں نہیں بنوں گی
نہ کوٹھے کی تماشہ گر
نہ بازار کی گمنام صدا
میں اپنی کوکھ کا سودا نہیں کروں گی
میں جنم دوں گی، مگر
کسی کی مرضی سے نہیں
اپنی رضا سے
یہ جو تم نے میری آنکھوں کو
جھکانے کی رسم دی
یہ جو تم نے میری ہنسی کو
شرم کا گناہ کہا
یہ جو تم نے میری آزادی کو
بے حیائی کا نام دیا
تو سُن، اب میں ہنسوں گی
اونچی آواز میں، پورے حق سے
اور میری ہنسی تمہارے قلعے گرا دے گی
میں جو تمہیں پڑھاتی ہوں
تمہاری زبان سکھاتی ہوں
تمہارے بچوں کو آدمی بناتی ہوں
اور جب کہتی ہوں
کہ میں بھی آدمی ہوں
تو تمہاری غیرت کو آگ لگ جاتی ہے؟
جلاؤ، مگر یاد رکھو
اب عورت خاک نہ ہو گی
وہ شعلہ بنے گی
وہ لپکے گی
وہ جلے گی، جلائے گی
عورت بولے گی
سنو، عورت بولے گی!
اُس کی آواز دریا ہوگی
اُس کی چال طوفان
اُس کی سوچ آسمان
اور اُس کی بغاوت
تمہارے ہر فتوے، ہر حکم، ہر قید کو
زمین بوس کر دے گی
یہ نظم اُس دن کی تمہید ہے
جس دن ہر عورت
اپنے نام کا پرچم تھامے
اپنے جسم، اپنی آواز، اپنی دنیا کا
اعلان کرے گی —
“میں عورت ہوں
میں زندہ ہوں
میں آزاد ہوں!”

0
7