اُٹھا زمانہ، صدا دے رہا ہے نور کی بات |
تلاش کر دل میں تو پائے گا حضور کی بات |
خودی کو کر بلند، مت رُک ظہور کی راہ |
سکھائے گی تجھ کو بھی بادِ صبور کی بات |
نہ دیکھ ظاہر کو، باطن کا راز کھلتا ہے |
حقیقتوں میں چھپی ہے سُرور کی بات |
جو حرفِ حق سے گریزاں ہے، وہی ہے محرومی |
نظر میں رکھ کے چمک دے ظہور کی بات |
یہی تو فطرت کا پیغام ہے، سن اے غافل |
نہیں ہے خاموش فضا میں سکوتِ دُور کی بات |
نہ خوابِ کاغذی کافی، نہ فکرِ بے عملی |
اُٹھا کے رکھ دے قدم پر شعور کی بات |
ہزار چہرے ہیں جو آئنے میں کھوئے ہوئے |
نہ اُن میں دل کی لگن ہے، نہ نور کی بات |
یہ کارواں جو رُکا، خاک ہو گیا آخر |
قدم بہ قدم ہے یہاں پر عبور کی بات |
شعورِ ذات ہو پیدا، تو کائنات ملے |
کہ بزمِ دل میں ہی رکھی ہے حُور کی بات |
یہ درد، شاکرہ، صدقِ سفر کا ہے انعام |
ملے گی فردا کو منزل، ہے جُور کی بات |
معلومات