میں اب وہ نہیں رہی جو کبھی آزادی کی علامت تھی—میں اب وہ ہوں جو غلامی کا زیور پہن کر قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی
میں ایک آزاد عورت تھی۔ میرے قدم جہاں چاہتے اُٹھتے تھے، میرے لہجے میں محبت اور میری آنکھوں میں خوابوں کی روشنی ہوا کرتی تھی۔ میرے دوست، میرے رشتہ دار، میرے لوگ — سب مجھ سے مسکرا کر ملتے تھے۔ مجھے اپنی سرزمین سے عشق تھا، جسے میں "مادرِ وطن" کہا کرتی تھی۔
میری رگوں میں تہذیب کی روانی تھی، میری سانسوں میں روایات کی مہک۔ دنیا کے ہر کونے میں گھومی، مگر وہ اطمینان، وہ سکون جو مجھے اپنی مٹی نے دیا، کہیں نصیب نہ ہوا۔
میں ریت کے ذروں پر لفظوں کی مہندی رچاتی، پہاڑوں کے دامن میں اپنے دل کی پکار سناتی۔ میں بلندیوں سے نیچے جھانکتی تو میری قوم کے بچے میری طرف اُمید سے دیکھتے، بزرگوں کی نگاہوں میں میرے لیے دعا ہوتی، اور ہر شخص مجھ سے یہی توقع رکھتا کہ میں چراغِ علم روشن کروں گی، اپنے لوگوں کی مددگار بنوں گی، کمزوروں کا سہارا، اور یتیموں کی آواز۔
میں چاہتی تھی کہ تعلیم کو ہر دہلیز تک پہنچاؤں، نوجوانوں کو روزگار کی راہ دکھاؤں، نئی دنیائیں تخلیق کروں، قوم کا نام دنیا میں روشن کروں۔
میرے خواب تھے کہ اپنی قوم کو اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ لا کھڑا کروں، غداروں کو بے نقاب کروں، مفاد پرستوں کو مٹی میں دفن کروں، اور انصاف کو ہر دروازے تک پہنچاؤں۔
میرے اندر ایک زندہ ضمیر تھا۔ میں جیتی اپنی قوم کے لیے تھی، اور مرنے کو تیار اپنی سرزمین کے لیے۔
میرے حوصلے آسمان کو چھونے کے متمنی تھے، میں دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، جو اپنی زمین پر وقار سے جینا چاہتی ہے۔
میں جاہلیت کے اندھیروں کو چیر کر شعور کے سورج کو گلے لگانے جا رہی تھی، جب اچانک غلامی کی زنجیروں نے میری راہ روک لی — ایک ایسی قید، جس کا میں نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔
میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، میرے ہاتھ ہتھکڑیوں سے جکڑ دیے گئے، میرے پاؤں باندھ دیے گئے۔
میری سوچوں پر حملہ ہوا، میرے جسم پر اذیت کا بوجھ لادا گیا، میری زبان کو خاموش کر دیا گیا۔
میرے گرد اندھیرا تھا، میرے اپنوں نے مجھے تنہا چھوڑ دیا۔ دوست اجنبی ہو گئے، رشتے بے معنی۔
میرے سامنے دو راستے تھے: ایک اذیت ناک موت، دوسرا غلامی کا زیور۔
میرے ہاتھ کانپ رہے تھے، دل سن ہو چکا تھا، ضمیر زخمی۔ اور میں نے، بے بسی میں، غلامی کا زیور پہن لیا۔ میری موت نہیں ہوئی، مگر میری روح مر چکی تھی۔ لالچ نے میرے ضمیر کی قبر پر پرچم گاڑھ دیا، اور مجھے ایک "لیڈر" کا لقب دے کر میرے ہی لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔
آج میں وہ عورت نہیں جو کبھی تھی۔
میں نہیں چاہتی کہ میرے غریب بچے پڑھ لکھ کر میرے لیے سوال بنیں۔ میں صرف اُنہیں علم دیتی ہوں جو میرے ساتھ غلامی کا زیور پہننے پر تیار ہوں۔
میں شعور سے ڈرتی ہوں، اس لیے کہ میں جانتی ہوں، شعور بغاوت بن جاتا ہے، اور بغاوت میری غلامی کے لیے خطرہ۔
جو آزادی کی بات کرے، میں اُسے غدار کہوں گی۔
جو تعلیم کی روشنی لائے، میں اُس کی زبان بند کر دوں گی۔
جو اتحاد کی بات کرے، میں اُس کی زنجیر توڑ دوں گی۔
کیونکہ میں اب "وہ" ہوں
جو غلامی کا زیور پہن کر اپنی قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔
اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو، تو غلامی کا زیور پہن لو۔
میں تمہیں دنیا کی دولت دوں گی، مگر آزادی کا خواب چھین لوں گی۔
تمھارے پاس دو ہی راستے ہیں:
یا تو مجھے مٹا دو،
یا میں تمہیں مٹا دوں گی۔
کیونکہ میں —
اب غلامی کا زیور پہن چکی ہوں۔
معلومات