زن آن نیست کہ در پردۂ شرم گم ہو — زن آن است کہ در خود، خدا کو پہچانے۔


سیاہ لباس، صرف ایک رنگ نہیں بلکہ ایک اعلان ہے — ایک عورت کی خاموش مگر پُرعزم موجودگی کا اعلان۔ اس تصویر میں جو عورت نظر آ رہی ہے، وہ نہ صرف اپنی نسوانی طاقت کو جانتی ہے بلکہ اسے شعوری طور پر تھامے ہوئے ہے۔ یہ صرف جمالیات کی تصویر نہیں، بلکہ شعور اور وجود کی بھی مکمل ترجمانی ہے۔


سیاہ لباس میں لپٹی یہ نسوانی ہستی، اُس تہذیبی بغاوت کی علامت ہے جہاں عورت کا جسم محض نظارہ نہیں بلکہ معنی ہے۔ اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ محض کشش کا اشارہ نہیں، بلکہ اس کے اندر کی مکمل خودمختاری کا اعلان ہے۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جہاں جسم روح کا آئینہ بن چکا ہے — اور روح، جسم کی زبان بولنے لگی ہے۔


فارسی اور بلوچ شعریات میں عورت کا بدن ایک "سرزمینِ ممنوعہ" کی طرح دیکھا جاتا رہا — پر اسرار، دلکش اور ناقابلِ تسخیر۔ لیکن یہ عورت نہ ممنوعہ ہے، نہ خموش۔ یہ ایک متحرک تشریح ہے اُس نسوانی حریت کی جو صدیوں سے جمال کی قید میں چھپائی گئی۔ اس کی نظریں راست سوال نہیں کرتیں، مگر جواب مانگتی ہیں۔ اس کے زیورات، اس کی انگلیوں کی جنبش، اور اس کے سیاہ لباس کی جھلک میں ایک پوری داستان چھپی ہوئی ہے — جو جمال سے زیادہ "جلال" پر یقین رکھتی ہے۔


ہماری تہذیب میں عورت کو یا تو دیوی بنایا گیا یا فاحشہ۔ مگر اس تصویر میں عورت محض ایک عورت ہے — جو مکمل ہے، پیچیدہ ہے، ناقابلِ فہم ہے مگر پُرکشش بھی۔ نہ وہ بت ہے، نہ وہ بندھن۔ وہ بدن کی وہ نظم ہے جو ہر شاعر لکھنا چاہتا ہے، مگر مکمل کبھی نہیں لکھ پاتا۔


یہ تصویر نسوانی طاقت کی ایک علامت ہے، جو مردانہ آنکھ کی گرفت سے نکل کر خود اپنی تشریح میں زندہ ہے۔ یہ تصویر ان سب نظریات کے خلاف ایک خاموش احتجاج ہے جو عورت کو فقط فطرت یا جنس کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔



0
5