بھوک سے بلکتی گلیوں میں، چہروں پر ویرانی ہے،
زندگی کی اجڑی راہوں میں، دُکھ کی اک کہانی ہے۔
کچھ محلوں میں جشن سجے ہیں، روشنی ہے، نغمے ہیں،
کچھ جھونپڑیاں سونی سونی، خالی ہاتھ، آنسو ہیں۔
چند گھروں میں نعمت بکھری، کھانے والے سیر ہوئے،
کچھ مجبوروں کے بچوں نے، پانی پی کے خواب بُنے۔
بیروزگاری، بکھری قسمت، سائے جیسے راہوں میں،
صبح سے شام تلک ہے فاقہ، زخم ہیں سب بانہوں میں۔
کون سنے گا، کون سمجھے، کس کے دل میں درد رہے؟
دنیا کی اس دوڑ میں دیکھو، کون کسی کا ہاتھ دے؟
چلو شاکرہ جلائیں دیپ امید کے، بانٹیں سب کے زخموں کو،
محبت کے رنگ سے بھر دیں، بھوک سے بلکتی گلیوں کو۔

1
25
ڈاکٹر صاحبہ - یاد رکھیں آزاد نظم بھی کسی بحر میں ہوتی ہے - اس میں بھی ہر مصرعے کی بحر ایک ہی ہونی چاہیئے ہاں مصرعے کے ارکان کی تعداد میں آزاد نظم میں کمی بیشی کی جا سکتی ہے -

بغیر بحر کے لکھئ ہوئی چیز آزاد نہیں نثری نظم کہلاتی ہے اور وہ علمائے شاعری کے نزدیک شاعری نہیں ہوتی -