یہ کیسا زہر ہے |
جو لفظوں میں گھلتا ہے |
خامشی کو چیخ میں، |
اور چیخ کو خامشی میں بدل دیتا ہے۔ |
یہ اختلاف نہیں، |
یہ فاصلہ ہے — |
سوچ اور سمجھ کے بیچ |
خون اور رشتے کے بیچ |
"ہم" اور "وہ" کے بیچ۔ |
کہاں کھو گئی وہ آواز |
جو کہتی تھی: |
"اختلاف، اختلاف ہے — |
دشمنی نہیں۔" |
ایک بچہ جب سیکھتا ہے |
کہ اس کی نسل بہتر ہے |
اس کی زبان برتر ہے |
اس کا مسلک پاک تر ہے |
تو ہم ایک اور جنگ کی بنیاد رکھ دیتے ہیں۔ |
نفرت کی آگ |
کبھی مکتب سے نکلتی ہے |
کبھی مسجد سے |
کبھی مندر، کبھی چرچ، |
کبھی ایک اسکرین پر |
کبھی کتاب کے صفحے سے۔ |
اور ہم سب جلتے رہتے ہیں |
راکھ ہوتے رہتے ہیں |
اپنے ہی لفظوں، |
اپنے ہی تعصبات میں۔ |
کیا کوئی لمحہ آئے گا |
جہاں ہم صرف |
انسان کہلائیں گے؟ |
نہ کسی قوم، نہ کسی قبیلے |
نہ کسی عقیدے کی زنجیر میں بندھے ہوئے؟ |
کیا کبھی ہم |
دوسروں کی بات سنیں گے — |
بغیر ڈر کے؟ |
بغیر شرط کے؟ |
کیا کبھی ہم |
دل کو زبان بننے دیں گے؟ |
اور زبان کو خاموشی؟ |
شاید... |
اگر ہم نے خود کو، |
دوسروں میں پہچانا — |
تو زہر بھی دوا بن سکتا ہے۔ |
اختلاف بھی حسن بن سکتا ہے۔ |
اور انسان... |
بس انسان بن سکتا ہے۔ |
معلومات