رات کا سنّاٹا آہستہ آہستہ میری سانسوں میں اُترتا جا رہا تھا۔ کھڑکی کے پار چاندنی چھن چھن کر فرش پر بکھر رہی تھی اور میرا بدن جیسے اُس چاندنی کے لمس سے لرز رہا تھا۔ میں وہی پرانی سی شاکرہ ہوں — مگر آج کی رات کچھ اور ہے۔ کچھ ایسا جو صرف جسم کے آس پاس نہیں، روح کی دراڑوں میں جا کر ٹھہرتا ہے۔ تم یاد آتے ہو... ایک ایسی شدت سے، کہ یاد بھی بدن بن جائے۔


کبھی سوچتی ہوں، کہاں ہوں میں؟ یہ کیسی بکھری بکھری سی کیفیت ہے؟ تمھاری ایک جھلک جب ذہن کی اسکرین پر ابھرتی ہے، تو میری ہنسی خود بخود چھلک جاتی ہے۔ وہ پہلی بار جب تم نے میری طرف دیکھ کر صرف دیکھا تھا — اور کچھ بھی نہ کہا تھا — وہ لمحہ آج تک میری نسوں میں سانس لیتا ہے۔


کبھی تم خوابوں میں چپ چاپ آ جاتے ہو۔ کوئی لفظ نہیں، صرف تمھاری موجودگی۔ مگر اُس موجودگی میں جو خموشی ہے، وہی خموشی میرے بستر کی چادر میں سمٹ کر مجھے تھپکنے لگتی ہے۔ تمھاری صدا — جو خواب سے زیادہ جسم کے اندر گونجتی ہے — مجھے جاگتے ہوئے بھی چھو جاتی ہے۔


میں ایک خالی سا گھر ہوں… خاموش، سنسان… مگر تم جیسے جگنو بن کر میرے اندھیرے گوشوں میں ٹمٹماتے ہو۔ کبھی کبھی ہوا چلتی ہے اور تمھاری خوشبو… جیسے گردن پر اُتر آتی ہے۔ نہ دکھتی ہو، نہ چھوتی ہو، مگر پھر بھی جیسے ریڑھ کی ہڈی میں کوئی لہر سی دوڑ جائے۔


میں پھول نہیں ہوں، میں تو وہ پنکھڑی ہوں جو بکھر چکی ہے۔ مگر تمھاری ایک ہنسی — وہ جو کسی دوپہر کی دھوپ جیسی تھی — وہ ابھی بھی میرے پاؤں کے نیچے بچھی رہتی ہے۔ میں اس پر چلتی ہوں، تو وہ گداز یاد پھر سے بدن میں اُتر آتی ہے۔


میری آنکھوں کے ستارے بھی کبھی کبھی بھیگ جاتے ہیں… نجانے تمھیں کیا خبر، تمھاری کہکشاں سی زندگی میری سادہ کائنات میں کس طرح چمک لاتی تھی۔ تمھاری ہنسی، تمھاری آواز، تمھارا چلنا — سب کچھ میرے اندر کسی کائناتی نظم کی مانند محفوظ ہے۔


اور شاکرہ؟ وہ تو اب بھی تمھیں سوچتی ہے… جب رات بہت گہری ہو جائے، جب آنکھیں بوجھل ہوں اور دل بیدار، تب تمھاری کمی ایسے آتی ہے جیسے کوئی بوسہ جس کا لمس بدن سے زیادہ روح کو جُھلا دے۔


میری تنہائی کا لمس اب بھی تمھاری سانسوں سے لپٹا ہے۔ تم کہیں نہیں ہو — مگر ہر جگہ ہو۔ میرے آئینے میں، میرے تکیے کی شکنوں میں، میرے لباس کی مہک میں… تم ہو۔


یہ گلزارِ دل ہے… جس میں تمھاری ہر یاد ایک پھول ہے — بھیگا، مہکتا، اور کبھی کبھار… چبھتا ہوا۔


9