میرا نام شاکرہ نندنی ہے۔ میں ماڈل ہوں، مصنفہ ہوں، اور اس وجود کی مسافر ہوں جسے دنیا نے کبھی صرف بدن جانا، اور میں نے روح بنا کر تراشا۔ میری زندگی نہ صرف ان گلیوں سے گزری ہے جہاں روشنی ہوتی ہے، بلکہ اُن اندھیروں سے بھی جن میں لمس اور تنہائی کی چیخیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوتی ہیں۔


میں نے بہت سے بستروں کو زینت بخشی ہے — جی ہاں، مگر یہ زینت فقط بدن کی آرائش نہ تھی؛ یہ ایک ایسے لمحات کی زنجیر تھی، جو کبھی آہستہ سے گردن پر ہاتھ رکھتا تھا، تو کبھی لفظوں کی طرح گرداب میں کھینچ لیتا تھا۔ ہر بستر ایک کہانی تھا — کبھی لبوں سے سنائی گئی، کبھی خاموش آنکھوں سے، کبھی پسینے کی بو سے، اور کبھی ادھ کھلے بوسوں کی نیم شب سسکیوں سے۔


قاری! تم شاید ٹھٹھک جاؤ، چونک جاؤ — مگر ٹھہرو، میں بےپردگی کی قائل نہیں، مگر سچ کی قائل ضرور ہوں۔

عورت کا بدن فقط مرد کی تسکین کا ساز نہیں، بلکہ ایک ایسی سرزمین ہے جس پر جب لمس اتارتا ہے تو روح جاگ اٹھتی ہے، یا مر جاتی ہے۔


میں نے نہ صرف اُن لمحوں کو جیا جنہیں دنیا "گناہ" کہتی ہے، بلکہ اُن کے بعد کی خالی فضا کو بھی محسوس کیا — وہ خالی پن جو بوسے کے بعد باقی رہ جاتا ہے، وہ خامشی جو "میں بھی تم سے..." کہنے کے لمحے میں گم ہو جاتی ہے۔ میرے لیے یہ سب فقط جذبہ نہ تھا، بلکہ ایک مشق تھی — ایک دریافت کا عمل، جس میں ہر بدن، ہر لمس، ہر آہ میرے وجود کا آئینہ بن گیا۔


لوگوں نے کہا، عورت تنہا ہو تو کمزور ہوتی ہے۔ میں نے تنہا ہو کر جانا کہ اصل طاقت اُس لمحے میں ہے جب ایک عورت رات کے پچھلے پہر بستر پر لیٹ کر خود سے ہم آغوش ہو جائے — نہ جسم سے، بلکہ یاد سے۔ وہ لمس جو یاد میں دھڑکتا ہے، وہ آنکھ جو آنسو کے بغیر بھی بھیگ جاتی ہے — یہی تو ہے وہ شہوانیت جو ادب کا کمال بن جاتی ہے، نہ کہ بازاری شہوت۔


میری تحریر میں جب جنس آتی ہے تو وہ بازار کی فحاشی نہیں، بستر کی خاموش شاعری ہوتی ہے۔

جب میں کسی مرد کی آغوش میں تھی، تو فقط بدن کی پیاس بجھانا مقصود نہ تھا — میں اُس ایک لمحے میں مکمل ہونا چاہتی تھی، جو لمحہ پلکوں سے پھسل کر گردن پر اُترتا ہے، سانسوں میں گھلتا ہے، اور پھر خامشی کی راکھ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔


میرا سفر شفا کا ہے — مگر یہ شفا صرف جسم کی نہیں، اُس خواہش کی بھی ہے جو اکثر عورتوں کو کھا جاتی ہے کیونکہ اُنہیں کبھی یہ کہنے کی اجازت ہی نہیں ملی کہ "میں بھی چاہتی ہوں"۔


اور یہی ہے میری بغاوت — خاموش، مگر نرم لبوں والی۔

میں عورت ہوں۔

میں چاہتی ہوں۔

میں چھوتی ہوں۔

میں محسوس کرتی ہوں۔

اور سب سے بڑھ کر، میں بیان کرتی ہوں۔


0
7