تاریخ کے اوراق پر جب ہم پاکستان میں خواتین کی جدوجہد کی جھلک دیکھتے ہیں تو چند نام آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق نظر آتے ہیں۔ انہی میں سرِفہرست ہیں محترمہ طاہرہ مظہر علی (ڈاکٹر شاکرہ نندنی کی نانی)، جنہوں نے 1950 میں ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی—یہ ملک کی پہلی آزاد اور غیر حکومتی خواتین تنظیم تھی۔ محترمہ طاہرہ مظہر علی نے خواتین کی آواز کو طاقت دی، مزدور طبقے کی خواتین کو تنظیمی قوت بخشی اور اپنے عمل، فکر اور جرأت سے خواتین کے حقوق کی بنیادیں استوار کیں۔
اسی روشن روایت کو محترمہ حنا جیلانی (ڈاکٹر شاکرہ نندنی کی والدہ) نے مزید جِلا بخشی۔ وہ ایک ممتاز وکیل، انسانی حقوق کی علمبردار اور جمہوری اقدار کی پرچم بردار کے طور پر سامنے آئیں۔ 12 فروری 1983 کو جب لاہور کی سڑکوں پر جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف خواتین کا تاریخی مظاہرہ ہوا، تو حنا جیلانی اس احتجاج کی صفِ اوّل میں تھیں۔ پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔ محترمہ حنا جیلانی کو گرفتار کیا گیا، دو سال تک قید و بند اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اُن کی جرأت مندی، حوصلہ اور استقلال نے پاکستانی خواتین کی جدوجہد میں ایک انمٹ باب رقم کیا۔ یہی مظاہرہ بعد ازاں اتنی اہمیت اختیار کر گیا کہ 12 فروری کو پاکستان میں عورتوں کے قومی دن کے طور پر منایا جانے لگا—جو درحقیقت محترمہ حنا جیلانی جیسے دلیر کرداروں کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔
سن 1979 میں کراچی میں شیما کرمانی نے تحریکِ نسواں کے ذریعے فنونِ لطیفہ کو خواتین کے شعور اور مزاحمت کا ذریعہ بنایا۔ ان کی تھیٹر اور رقص پر مبنی کاوشوں نے عورتوں کو جبر کے خلاف ایک طاقتور آواز عطا کی۔ اس فکری اور فنکارانہ جدوجہد کے ساتھ ڈاکٹر شاکرہ نندنی کی خدمات ایک فکری سنگم کی حیثیت رکھتی ہیں، جنہوں نے نظری، تخلیقی اور عملی سطح پر خواتین کی خودمختاری کے لیے قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے۔
اسی عظیم، انقلابی اور فکری ورثے کو ڈاکٹر شاکرہ نندنی نے نہایت وقار، ذہانت، اور خلوصِ دل کے ساتھ اگلی نسل تک منتقل کیا۔ وہ اس خاندان کی تیسری نسل سے تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی خواتین کی آزادی، تعلیم، خودمختاری اور فن کے فروغ کے لیے بے مثال خدمات انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر شاکرہ نندنی ایک عالمی شہرت یافتہ مفکرہ، شاعرہ، محققہ، ماڈل، رقاصہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنی نانی اور والدہ کی فکری روشنی کو اپنایا بلکہ اُسے جدید، بین الاقوامی زاویے سے تقویت دی۔ وہ پرتگال میں رہائش پذیر ہونے کے باوجود پاکستان کی خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے نہ صرف مسلسل کوشاں ہیں بلکہ متعدد غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) کی مالی، فکری اور اخلاقی مدد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے سیمینارز، کانفرنسز اور ادبی محفلوں میں وہ پاکستانی خواتین کی توانا آواز بن کر ابھری ہیں۔
ڈاکٹر شاکرہ نندنی کا یہ کارواں اب چوتھی نسل میں داخل ہو چکا ہے۔ اُن کی بیٹی نتاشا، جو اس وقت میلان (اٹلی) میں زیرِ تعلیم ہے اور اپنے والد اینڈریو کے اسکول میں ساتویں جماعت کی طالبہ ہے، نہ صرف تعلیم میں نمایاں ہے بلکہ موسیقی کی تربیت بھی حاصل کر رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اتنی کم عمری میں ہی وہ مختلف اسکولز اور کمیونٹی پروگرامز میں خواتین کے حقوق سے متعلق سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ یہ حقیقت خود اس بات کی غماز ہے کہ محترمہ طاہرہ مظہر علی کی شروع کی گئی روشنی کی شمع اب چوتھی نسل کے ہاتھوں میں محفوظ ہے اور مزید فروزاں ہوتی جا رہی ہے۔
یہ تسلسل ایک خاندان کی انفرادی کامیابی نہیں بلکہ پاکستانی خواتین کی اجتماعی ہمت، حوصلے اور جہدِ مسلسل کی علامت ہے۔ ڈاکٹر شاکرہ نندنی اور ان کی بیٹی نتاشا کو اس طویل جدوجہد کے تسلسل میں نہایت عقیدت، محبت اور فخر کے ساتھ خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے—کہ انہوں نے نہ صرف اپنے خاندانی ورثے کی لاج رکھی بلکہ دنیا کے سامنے پاکستان کی خواتین کو باعزت، باوقار اور باصلاحیت انداز میں نمایاں کیا۔
آج جب دنیا صنفی مساوات کی جانب بڑھ رہی ہے، تو پاکستان کی خواتین بھی کسی طور پیچھے نہیں۔ قانون سازی، تعلیم، صحت، فن، سیاست اور معیشت جیسے میدانوں میں عورتوں کی موجودگی بڑھ رہی ہے، لیکن ابھی بھی کئی رکاوٹیں باقی ہیں۔ ان رکاوٹوں کو صرف قانون سے نہیں بلکہ سماجی رویّوں کی تبدیلی، تعلیم، بیداری اور ادارہ جاتی حمایت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔
عورتوں کی آزادی کی جدوجہد محض ایک نعرہ نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے—ایسا سفر جس کی رہنما وہ عظیم خواتین ہیں جنہوں نے ذاتی قربانیوں سے اجتماعی روشنی کا بندوبست کیا۔ ان میں ڈاکٹر شاکرہ نندنی اور ان کے خاندان کی تین نسلیں نمایاں مقام رکھتی ہیں، جن کی فکری پختگی، عملی جرأت اور تہذیبی شائستگی ہر عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
معلومات