| کہاں لے آئی ہے ہم کو طلب دید کی رات، |
| خموشی میں بھی دہکتی رہی دل کی ہر بات کے ساتھ۔ |
| بدن وہی ہے مگر روح کی گہرائی کچھ اور، |
| ملی ہے تازگی، اک عہدِ پرانی حیات کے ساتھ۔ |
| رگوں میں گردشِ امّید پھر جاگ اٹھی ہے، |
| وصال آیا ہے تقدیر کی نو لمحات کے ساتھ۔ |
| تری نگاہ میں اب بھی ہے وہی آتشِ شوق، |
| بیاں ہو جیسے کوئی رازِ نَو از ذات کے ساتھ۔ |
| تھکا بدن ہے، مگر روح کا جذبہ ہے جوان، |
| سفر نیا ہے، مگر دُور نہیں ہم ثبات کے ساتھ۔ |
| لمس تیرا، تری خاموشی، ترا سوزِ نِگاہ، |
| نہاں ہے اس میں فسانہ کوئی کائنات کے ساتھ۔ |
| جسے کہا تھا کبھی وقت نے "فرسودہ بدن"، |
| وہی بدن جگمگایا ہے آج جذبات کے ساتھ۔ |
معلومات