Circle Image

Shahab Ahmad

@Shahaba

غزل
محبت جب سنور جائے، تو منظر اور ہوتا ہے
اگر دل سے اُتر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے
نفاست سے پروئے ہوں تو پتھر بھی لگیں موتی
مگر مالا بکھر جائے ، تو منظر اور ہوتا ہے
کرے وہ وصل کا وعدہ تو جھوموں شادمانی سے

3
21
غزل
آج ملنا، بہت ضروری تھا
بات کرنا، بہت ضروری تھا
میں دل و جان سے تمھیں چاہوں
بس یہ کہنا، بہت ضروری تھا
جان بے رنگ، سرد منظر میں

14
غزل
نازک نفیس پا کے بوسے لئے لگن میں
شعلے لطیف لپکے صندل سے اُس بدن میں
بے ساختہ لبوں سے پیوست ہو گئے لب
غنچے حسیں لبوں کے چٹکے جو بانکپن میں
لب کی حلاوتوں سے محظوظ کرتے کرتے

0
8
غزل
سچ، حقیقت ہے، مشقت نہیں ہوتی ہم سے
کُوۓ جاناں کی بھی زحمت نہیں ہوتی ہم سے
کام از خود کوئی پھرتی سے ہمارے کر دے
صبر کے ساتھ ریاضت نہیں ہوتی ہم سے
آپ بولے کہ، کہو، ہم نے شکایت کر دی

0
4
71
غزل
ہر گھڑی رحمتِ یزداں کا طلب گار ہوں میں
خُوب معلوم ہے انساں ہوں خطا کار ہوں میں
وسعتِ ظرفِِ کرم دیکھ کہ فرماتے ہیں
متقی ہے کہ تُو عاصی ہے مدد گار ہوں میں
پھل لدے باغ بھی شعلوں کے حوالے کر دوں

20
غزل
ہم پکاریں ہیں اِدھر آپ اُدھر جاتے ہو
بات بے بات مری جان بگڑ جاتے ہو
چاند چہرے سے ہیں وابستہ ہماری خوشیاں
عید ہوتی ہے وہیں آپ جدھر جاتے ہو
رَوز مشتاق نگاہوں سے بچا کر نظریں

0
3
58
غزل
آپ ہنستی ہیں تو شہکار غزل ہوتی ہے
ورنہ، پژمردہ و بیکار غزل ہوتی ہے
ناز اتنے ہیں اکیلے نہیں اُٹھتے اُن سے
ساتھ اِک حاشیہ بردار غزل ہوتی ہے
گرچہ ہر صنفِ سخن رشکِ ہنر ہے لیکن

0
66
غزل
عمر درکار ہے اِک کار ہنر ہونے تک
رَوز کوشاں ہوں تِری زُلف کے سَر ہونے تک
حُسن مصروف ہے زیبائشِ زینت میں مگن
عِشق مامور ہے اِک لُطف نظر ہونے تک
ہم طلب گارِ توجہ تھے بھکاری تو نہ تھے

0
24
غزل
قدم ہوں برسرِ منزل مگر حصول نہ ہو
غرور سر کا ا گر راستے میں دھول نہ ہو
درِ نیاز پہ دل چھوڑ کر یہ کہہ آیا
عُدو میں بانٹ دیں اِس کو اگر قبول نہ ہو
ہزار لغزشیں کرتا ہوں اک ہنر کے لئے

0
39
غزل
آپ کا ہر خیال عمدہ ہے
بے ادب کی مجال عمدہ ہے
سو جہت سے پرکھ کے دیکھ لیا
ہر ہنر بے مثال عمدہ ہے
ہر خزینے پہ خاص درباں ہے

0
42
غزل
دَرد ہے تو فغاں ضروری ہے
آگ ہے تو دھواں ضروری ہے
وہ کہیں ہاں، تو ہاں ضروری ہے
وہ کہیں ناں، تو ناں ضروری ہے
ناز نخرے ہمارے دَم سے ہیں

0
35
غزل
ٹھیک سمجھے ہو، سچ کہا، بولو
پیٹھ پیچھے نہ تم برا بولو
آپ دیرینہ یار ہو میرے
مَن میں جو بھی ہے برَملا بولو
لوگ اخلاص کے نہیں قائل

0
29
غزل ( فلسطین کے نام)
بولو بولو ہمیں بُرا بولو
ظلم ہم نے بڑا کیا بولو
آج چوٹی پکڑ کے ظالم کی
ہم نے اَوندھا گِرا دیا بولو
خُون آلود دانت توڑ دیئے

0
66
غزل
اُن سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
“ وَرنہ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا ”
شکریہ - تہنیت ۔ عنایت کا
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
آپ اپنے ہیں، سو شکایت ہے

0
119
غزل
ہاتھ میں ہاتھ دو، جئیں گے ہم
ورنہ، جی کر بھی کیا کریں گے ہم
جِن اداؤں کو زندگی جانیں
اُن اداؤں پہ مر مٹیں گے ہم
آپ نے کس بنا پہ ٹھکرایا

0
129
غزل
محبت سے شناسا کر کے تنہا چھوڑ مت جانا
اجالے بھر کے جیون میں اندھیرا چھوڑ مت جانا
تمھارے ساتھ مل کر میں زمانے بھر سے لڑ جاؤں
مگر جینے نہیں دے گا زمانہ - چھوڑ مت جانا
یہاں انسان کے بہروپ میں کچھ بھیڑیے بھی ہیں

0
73
غزل
محبت اِک حکایت ہے
محبت اِک حقیقت ہے
محبت ہے تو رحمت ہے
محبت خوب صورت ہے
ہوس سے پاک و پاکیزە

0
78
غزل
عبادت کی طرح سمجھی محبت خُوب کی ہم نے
محبت کی لڑائی بھی محبت سے لڑی ہم نے
کبھی افراط دولت کا نہیں دیکھا مگر ساتھی
تمھیں ہونے نہیں دی ہے محبت کی کمی ہم نے
مری تنہائیاں آباد ہیں اک بزم کی صورت

86
غزل
برف کے پگھلنے تک منتظر رہوں گا میں
کونپلیں نکلنے تک منتظر رہوں گا میں
سردیوں کے موسم کی صبر آزما شب میں
روشنی نکلنے تک منتظر رہوں گا میں
بارشوں سے مٹی میں زندگی نمو پائے

0
100
غزل
پیار ہو جائے تو ہر بات کے لطف آتے ہیں
ہجر کی شب ہو ۔ ملاقات کے لطف آتے ہیں
کیسی لگتی ہوں میں؟ ہر روز سنور کر پوچھو
ایسے معصوم سوالات کے لطف آتے ہیں
آپ کے قرب کے شعلے جو میسر ہیں ہمیں

0
63
غزل ( دو گانا )
اُس رَوز مَسرت سے ہم جاں سے قضا ہوں گے
جِس رَوز ترے وعدے اے جان وفا ہوں گے
سو بار مناؤں گی، سو بار خفا ہوں گے
مر جاؤں نہ اُف الّٰلہ گر آپ جدا ہوں گے
نخریلی سجنی کے ہر ناز پہ دل قرباں

0
65
غزل
عہد جھوٹے کیا کرو کم کم
دَرد مِیٹھے دِیا کرو کم کم
دن قیامت سے تم نہیں ڈرتیں؟
یوں قیامت بپا کرو کم کم
بِن تُمھارے یہ پَل نہیں کٹتے

0
65
غزل
پَگلا گیا ہے دِل اِسے دِلدار چاہئے
سَر پھوڑنے کے واسطے دیوار چاہئے
چھانی ہزار منزلیں، تسکیں نہیں ہوئی
جُوشِ قَدم کو راستہ دُشوار چاہئے
حق بات پر مُصر رہیں، آسان تو نہیں

0
56
غزل
کٹھن مسافتیں آسان و مختصر کر دے
عجب نہیں کہ وہ دیوار ہی کو در کر دے
ہمیں تو شمعیں جلانی ہیں اپنے حصے کی
بعید کیا ہے سیہ رات ہی سحر کر دے
کمال شانِ کرم اور بے نیازی ہے

0
51
غزل
بے ہنر لوگ بھی با ہنر ہو گئے
ہم گرے پھر نہ سنبھلے صفر ہو گئے
بھیک لیتے رہے ہم خودی کے عوض
آج غیروں کے دستِ نگر ہو گئے
بے خَطر جِن پہ کھیلے لڑکپن میں ہم

102
غزل
پُھول کے تذکرے، خَار کی داستاں
زندگانی ہے گُل زار کی داستاں
گُل حیا سے ہُوا شبنمی شبنمی
جب سُنی اَن کہی خار کی داستاں
وقت چُن چُن کے کردار دیتا گیا

0
93
غزل
آؤ مل کر جُت جائیں سب فرصت کے لمحات نہیں
اب کے برس آفت آئی ہے رومانی برسات نہیں
لاکھوں کنبے ڈوب گئے ہیں کچھ معمولی بات نہیں
ہمت کوشش ترک کریں ہم ایسے بھی حالات نہیں
برسوں کی غفلت کے کارن طوفاں برپا ہوتا ہے

0
115
غزل
مصاحب غیر کا بنتا ہے کیوں بیکار جانے دے
نہ اپنی قوم سے ہو بر سرِ پیکار جانے دے
سپاہی کو نہیں زیبا کرے وہ غیر سے سازش
سہولت سے تُو بن جائے سہولت کار جانے دے
لبادہ اوڑھ لو کوئی برہنہ دِکھ رہے ہو تم

54
غزل
سبب خرابیِ حالات کا ہے کیا سمجھیں
شہاب آؤ گریباں میں جھانک کر دیکھیں
نہیں ہے فکر کسی قائدِ مدبّر کو
بھنور میں ڈوب رہے ہیں تو کس طرح نکلیں
مثال میرے وطن کی ہے اُس عمارت کی

0
78
غزل
لٹا چکا ہے تُو اپنا وقار جانے دے
تُو بِک چکا ہے مرے جاں نثار جانے دے
سپاہ کو نہیں زیبا کہ وہ کریں سازش
سجا نہ خون سے یہ سبزہ زار جانے دے
ہزار نسلوں سے تیرے غلام ہیں گرچہ

3
116
غزل
تب دوریوں کے موسم تھے ہجرتوں نے مارا
اب قربتیں ہیں حاصل دِل داریوں نے مارا
سب ٹھیک ٹھاک تھا تو کیوں عاشقی کی سوجھی
اس نا بکار دل کو سر مستیوں نے مارا
اسباب سب خوشی کا زادِ سفر میں باندھا

0
99
غزل
تماش بین کھڑے ہیں قطار میں سارے
لگی ہے آگ مرے کوئے یار میں سارے
نفیس دوست شب و روز ساتھ ہنستے تھے
الجھ گئے ہیں غمِ روزگار میں سارے
زمین و زر کی محبت میں مبتلا ہیں سب

0
99
غزل
دست و بازو پہ سجی شوخ حنا یاد رہی
کھل کھلا کر ترے ہنسنے کی ادا یاد رہی
بھول کر ہجر کے صدمے وہ اکیلی راتیں
ہنستی آنکھوں میں چمکتی وہ حیا یاد رہی
تلخ ماضی کے حوادث کو فراموش کیا

0
74
غزل
حسین چہرہ اگرچہ کتاب جیسا ہے
نظر میں لطف پرانی شراب جیسا ہے
روش روش پہ کھلیں باغ، پھول قرباں ہوں
ترا مزاج بھی بہتی چناب جیسا ہے
سیاہ رات کے دامن میں چاندنی بھر دے

0
131
غزل
چمک رہا ہے نیا آفتاب ٹہنی پر
عجب ادا سے کھلا ہے گلاب ٹہنی پر
پلٹ کے آپ نے دیکھا نقاب ٹہنی پر
مہک اٹھے ہیں خوشی سے گلاب ٹہنی پر
ہزار کانٹوں میں رہ کر خوشی خوشی جھومیں

0
116
غزل
قرار واقعہ دل کو قرار آ جائے
ترے قرار پہ گر اعتبار آ جائے
نفیس لب پہ شگفتہ نکھار آ جائے
بہار آنے سے پہلے بہار آ جائے
اسے سکون میسر نہیں سوا تیرے

0
114
غزل
حقیقت کھولتا کوئی نہیں ہے
کڑا سچ بولتا کوئی نہیں ہے
شکایت حبس کی کرتی ہے دنیا
دریچہ کھولتا کوئی نہیں ہے
چمن میں چار سو خاموشیاں ہیں

0
83
غزل
بے وجہ سب سے محبت ہے مصیبت کیا ہے
کون سمجھائے موئے دل کو حقیقت کیا ہے
ایسے لوگوں سے محبت کی ضرورت کیا ہے
جن کو یہ تک نہیں معلوم محبت کیا ہے
شوخ نظروں نے شرارت پہ اِسے اُکسایا

0
162
غزل
نفیس نوکِ قلم کا یہ شاخسانہ ہے
یہ زندگی بھی حقیقت نہیں فسانہ ہے
حدف حسین نگاہوں کا اصل ایماں ہے
یہ دل غریب فقط مشق کا نشانہ ہے
حیات آئی سمجھ میں تو اس قدر آئی

0
103
ستمبر کی بہار
دھول اڑتی تھی چار سو یکساں
زرد پتے تھے ہر طرف رقصاں
بیسواں روز تھا ستمبر کا
لیکن اک حجرۂ رفاقت میں
وصل کی اک حسیں مسہری پر

0
60
غزل
چشمِ خُوباں ایاغ کی صُورت
زلف دُودِ چِراغ کی صُورت
نرم و نازک وجود صندل سا
اک سراپا ہے باغ کی صُورت
لطف نازک نفیس ہونٹوں کے

0
138
غزل
آتش کدہ ہے گھر مرا اس گھر کا کیا کروں
شرمندگی سے جُھک گیا تو سر کا کیا کروں
لتھڑے پڑے ہیں خون میں ماؤں کے چاک دل
ہٹتا نہیں ہے آنکھ سے منظر کا کیا کروں
بچوں کا قتل عام - مذمّت تو فرض ہے

103
غزل
ساتھی ہو تو من کو سب کچھ اچھا اچھا لگتا ہے
ورنہ ہنستا بستا آنگن سونا سونا لگتا ہے
تیرا پیکر تازہ تازہ پھولوں کا گل دستہ ہے
چھو لوں جس پل اپنا تن من مہکا مہکا لگتا ہے
چاندی جیسا تیرا پیکر کپڑوں میں رَچ جاتا ہے

0
102
غزل
گزر چکے ہیں بہت ماہ و سال یہ سوچیں
قریب آمدِ روزِ وصال یہ سوچیں
بہار دیکھی ہے لطفِ خَزاں بھی دیکھیں گے
عروج ہے تو کبھی ہے زوال یہ سوچیں
اگر تو چھوڑ کے جانا ہے مال و زر پیچھے

0
138
غزل
مہکا مہکا ترا گلزارِ بدن یاد آیا
ہنستا ہنستا ترا اندازِ سخن یاد آیا
لب و رخسار کے گل اور مہکتے گیسو
شام آئی تو وہی رشکِ چمن یاد آیا
رکھ لیا غنچۂ گل توڑ کے رخساروں پر

0
113
غزل
دلیلیں تو وکیلوں سے بھی پائیدار دیتی ہے
مباحث جیت کر خود مجھ سے بازی ہار دیتی ہے
اِسی ایثار کے صدقے سے اُونچا ہے مِرا شِملا
مِری سجنی تو بازی جیت کر بھی ہار دیتی ہے
بہت مضبوط ہے عورت اسے کمزور مت سمجھیں

0
96
غزل
مسکراتے ہوئے لب دیکھ مچل جاتا دل
اک شکن ہوتی جبیں پر تو دہل جاتا دل
خوب سنجیدہ مزاجی سے محبت کی ہے
کوئی لونڈا تھا میں اُوباش بدل جاتا دل
گوشے گوشے پہ بدن اس نے ترے بوسے لئے

0
58
غزل
لوگ عالی نصیب ہوتے ہیں
جو دلوں کے قریب ہوتے ہیں
ڈھڑکنیں تیز ہوتی جاتی ہیں
آپ جتنا قریب ہوتے ہیں
جو نبھائیں خُلوص سے رشتے

0
133
غزل
بے سبب تم قیاس مت کرنا
اب طبیعت اداس مت کرنا
عشق کرنا حسین لوگوں سے
اک حسینہ کو خاص مت کرنا
چھیڑ کر ذکر بے وفاؤں کے

0
105
غزل
جھوٹی مطلب کی دنیا میں ڈھونڈے سے مخلص یار نہیں
پر ہم نے سچا پیار کیا اس سچ سے بھی انکار نہیں
انمول محبت کا گہنا بے مول کسی کو سونپ دیا
اک عاشق دل کا سودا تھا یہ دنیا کا بیوپار نہیں
ہم محفل محفل ہنستے ہیں پر تنہائی میں روتے ہیں

0
130
غزل
دل کو شعلے دکھا کے مت جاؤ
ایسے دامن چھڑا کے مت جاؤ
شوخ مہکی لطیف سانسوں سے
دل میں طوفاں اٹھا کے مت جاؤ
جذب کرنے دو لمس کی راحت

102
غزل
بچوں کے ساتھ صحن میں رونق لگی رہے
بچوں بغیر گھر میں اداسی بنی رہے
ماں باپ جھیلتے ہیں کڑی دھوپ کی تپش
بچوں کے سر پہ چھاؤں ہمیشہ گھنی رہے
سر جوڑ کے یوں بیٹھے ہیں ٹہنی پہ جیسے پھول

0
90
غزل
تری دلدار بانہوں کے حسیں گھیرے مری توبہ
تری ترچھی نگاہوں کے حسیں ڈورے مری توبہ
گھنی پلکیں، حسیں ابرو ، نفاست سے سجا کجرا
تری ہنستی ہوئی آنکھیں کہیں نغمے مری توبہ
مرے جذبات گرمائیں شرارت پر یہ اکسائیں

0
1
241
ملی نغمہ ۔ (غزل)
سب سے آگے سب سے اوّل میرا پاکستان رہے
مجھ کو دُنیا بھر سے افضل میرا پاکستان رہے
اس مٹی کا ذرہ ذرہ چاند ستاروں سے روشن ہو
جھلمل جھلمل جھلمل جھلمل میرا پاکستان رہے
کرکٹ کے میدان سے لے کر چاغی کوہستان تلک

0
173
غزل
رنج بھی راحت فزا ہیں نفس کی تسخیر میں
پھوٹتی ہیں راحتیں ہر حلقۂ زنجیر میں
اب مجھے ظلمات سے کوئی بھی اندیشہ نہیں
آئینہ دل کا مجلا ہے نئی تنویر میں
صرف اِک اسمِ محمدﷺ ہے وہ بس بعد اَز خدا

0
103
الوداع
میری لختِ جگر الوداع الوداع
میری نورِ نظر الوداع الوداع
میری نورِ بصر الوداع الوداع
میری بچی تجھے الوداع الوداع
ہو مبارک نئی زندگی کا سفر

3
140
غزل
یہ چند روزہ خزاں کا شمار ہے پیارے
قریب آمدِ فصلِ بہار ہے پیارے
بگڑ گئیں تو دل و جاں، جگر سے جاؤ گے
حسین آنکھوں کا کچھ اعتبار ہے پیارے
کسی نے دیکھا ہے چاہت بھری نگاہوں سے

85
غزل
جاوداں حسن کی علامت ہو
میرے گلشن کی اصل زینت ہو
میری نیندوں میں جو سحر پھونکے
تم اسی خواب کی حقیقت ہو
تیری قربت مری حسیں جنت

0
101
غزل
اوّل اوّل پیار میں وہ ہچکچانا یاد ہے
رفتہ رفتہ قربتوں کے لطف پانا یاد ہے
لمس کی لذت سے مجھ کو آشنا کرنا ترا
وہ یکایک ہاتھ چھو کر بھاگ جانا یاد ہے
پہلے لکھنا پیار کے نغمے، محبت کے خطوط

0
1
70
غزل
کھنکھناتی ہوئی مٹی سے اُٹھایا مجھ کو
آتشِ عشق میں پھر پُختہ بنایا مجھ کو
وَصف اِبلیس و ملَائک کے وَدیعت کر کے
اپنی تخلیق کا شہکار بتایا مجھ کو
ڈال کر اپنی تمنا مرے دل میں خود ہی

0
359
شکریہ ہمسفر
میرے جیون میں آئی تُو بن کے سَحَر
زندگی بن گئی روشنی کا سفر
مشکلیں زندگی میں رہیں جس قدر
ہاتھ مضبوط تھامے رہی عمر بھر
اے مری ہم نوا اے مری ہم سفر

0
195
بیٹیاں
بیٹیاں نور نظر دل کی صدا ہوتی ہیں
بیٹیاں مثل دعا مثل شفا ہوتی ہیں
تپتے صحراؤں میں یہ باد صَبا ہوتی ہیں
بیٹیاں باپ کی پَگھ ماں کی رِدا ہوتی ہیں
فخر کرتی ہیں وہ اَقدار پہ اپنے اعلٰی

136
نعت
عقل کو وجداں سکھایا آپﷺ کی تعلیم نے
آشنا رب سے کرایا آپﷺ کی تعلیم نے
لائقِ سجدہ نہیں رب کے سوا کوئی یہاں
بندگی کرنا سکھایا آپﷺ کی تعلیم نے
فاتحہ تا ناس اک دانش کدہ ہے القراں

0
119
ایبٹ آباد
ایبٹ آباد مرے شہر تو آباد رہے
دل تری یاد میں اکثر یونہی برباد رہے
تُو مرے شہر سدا شاد ہو آباد رہے
تُو مجھے پہلی محبت کی طرح یاد رہے
تری وادی کے مناظر ہیں زمانے سے جدا

0
94
غزل
حقائق پر نہ مبنی ہو تو چاہت مار دیتی ہے
عقیدت حد سے بڑھ جائے عقیدت مار دیتی ہے
کہیں تنہائیاں انسان کو جینے نہیں دیتیں
کہیں اچھے بھلے انساں کو صحبت مار دیتی ہے
کسی سے پیار کے بدلے کوئی امید مت باندھو

0
96
غزل
صبح آئے نہ کبھی یار بِنا شام آئے
میرے ہونٹوں پہ ہمہ وقت وہی نام آئے
مے بھی ہے چاند بھی پرجوش محبت بھی ہے
لطف آ جائے ہمیں وصل کا پیغام آئے
جان بھی مانگیں تو اک پل نہ تعامل برتوں

0
95
غزل
چھپی ہے دل میں ہزار لالچ، یونہی میں تم پر فدا نہیں ہوں
میں ایک بندہ ہوں بندہ پرور ، خدا نہ سمجھو خدا نہیں ہوں
مرے رفیقوں نے جوڑ رکھے ہیں بے وفائی کے سو فسانے
مرے رقیبوں سے پوچھ لو تم حقیقتاّ میں برا نہیں ہوں
اگر کبھی تم منانے آتے، مرے لبوں سے یہی تو سنتے

0
129
غزل
تُو میرا ساجن من ماہی، تُو ہی میرا دلدار پیّا
تُو میری اکھیوں کی ٹھنڈک، تُو دل کا چین قرار پیّا
میں ڈالر پیسے کیوں جوڑوں، یہ سونے چاندی کِس کارن
تُو میرا جیون سرمایہ، تُو میرا ہار سنگھار پیّا
تیری خوش نُودی کی خاطر، اک دن میں سو سو بار سجوں

87
غزل
قسم زیتون کی اقصی عقیدت ہے جنوں کر کے
نہ رکھ پائیں گے وہ محکوم تجھ کو قتل و خُوں کر کے
برُا دھبہ ہے اسرائیل کا ناموسِ انساں پر
جسے تسکین ملتی ہے ہمیشہ کُُشت و خُوں کر کے
نہایت ہی بُرا بزدل ہے گرچہ سُورما ہو گا

106
غزل
دوستو ۔ ریت پرانی یہ نبھاتے جاتے
آتے جاتے کبھی دو چار سناتے جاتے
جان پیاری ہے صنم آپ سے پیاری تو نہیں
ایک موہوم اشارے پہ لٹاتے جاتے
اب میں اغیار سے کیا دل کے فسانے چھیڑوں

190
غزل
گداز سینوں کی حدت کے لطف مت پوچھو
سیاہ زلف کی ظلمت کے لطف مت پوچھو
شہد ٹپکتا ہے کھلتی نفیس کلیوں سے
حسین لب کی حلاوت کے لطف مت پوچھو
حنا کے رنگ سے آراستہ ہے اک گلشن

0
108
غزل
مُسکراتے ہوئے پیغام وہ کیا دیتے ہیں
آنکھ مِلتی ہے تو شرما کے جُھکا دیتے ہیں
لاکھ مُشتاق نظر سے وہ تغافل برتیں
رَنگ رُخسار کے سچ بات بتا دیتے ہیں
روز آتے ہیں سرِ بام وہ سج کر لیکن

0
104
کبھی کبھی
کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے
ترے بغیر مری زندگی ادھوری تھی
مجھے وفا سے محبت سے سرفراز کیا
مری حیات کو چاہت کی چاشنی بخشی
مرا نصیب درخشاں ترے ملن سے ہوا

233
غزل
چند اپنوں کی عنایات سے دل بوجھل ہے
آج پھر شورشِ جذبات سے دل بوجھل ہے
جانے کب صبحِ مسرت کا اجالا چمکے
ظلمتِ غم کی کڑی رات سے دل بوجھل ہے
بات کہنے کی وہ کہتے ہیں نہ میں کہتا ہوں

0
142
غزل
کہیں سروش صفت ہے کہیں پہ ہے شیطاں
کہ خیر و شر کا حسیں امتزاج ہے انساں
میں منتظر ہوں وہ اک روز بھول جائیں گے
مُکر چکے ہیں وہ سو بار کر کے یہ پیماں
یہ خاک و خون میں لتھڑے پڑے ہیں کیوں لاشے

0
84
غزل
چوڑیوں کا چھن چھنا چھن بولنا اچھا لگا
دست و بازو پر سجا رنگِ حنا اچھا لگا
برق چمکی اور سمٹ کر ایک قالب ہو گئے
چاہتوں کی بارشوں میں بھیگنا اچھا لگا
بعد بارش وہ ٹھٹھرنے کا بہانہ خوب تھا

0
233
غزل
جی چاہتا ہے آپ سے فرصت میں بات ہو
بیٹھوں قریب آپ کے قربت میں بات ہو
ہاتھوں میں ہاتھ تھام کہیں دور جا پڑیں
دنیا سے دُور پیار کی جنت میں بات ہو
بیٹھیں بدن سُکیڑ کے پھر ایک ساتھ ہم

0
101
غزل
شراب شیشے سے پینا خراب ہے پیارے
کوئی نظر سے پلائے ثواب ہے پیارے
ابھی جوانی ہے زورِ شباب ہے پیارے
ذرا سنبھل کے زمانہ خراب ہے پیارے
قدم قدم پہ سہانا فریب ہے دُنیا

0
115
غزل
میں ترے روپ کی تصویر بناتا کیسے
حسن تصویر کے پردے پہ سماتا کیسے
دیکھ کمبخت تری قید میں خوش ہے کتنا
دل ستمگر ترے چنگل سے چھڑاتا کیسے
میں نے ہر طور وفاؤں کی نگہبانی کی

0
74
غزل
حسیں رُخسار پہ رُخسار ٹیکوں اور سو جاؤں
تِرے مخمل بدن سے تن لپیٹوں اور سو جاؤں
دہکتی آگ سے شعلے لپکتا ہے بدن تیرا
چَلو آوٴ ذرا کچھ ہونٹ داغوں اور سو جاؤں
تِری قربت سبھی آزار جیون کے بھلا ڈالے

0
110
غزل
مُسکراتے ہوئے پیغام وہ کیا دیتے ہیں
آنکھ مِلتی ہے تو شرما کے جُھکا دیتے ہیں
لاکھ مُشتاق نظر سے وہ تغافل برتیں
رَنگ رُخسار کے سچ بات بتا دیتے ہیں
روز آتے ہیں سرِ بام وہ سج کر لیکن

0
152
غزل
مدوا تری آنکھوں سے چھلکتی ہے ابھی بھی
پُروا تری زلفوں سے الجھتی ہے ابھی بھی
شوخی ہے شرارت ہے وہ مستانہ نظر میں
بجلی کی طرح دل پہ لپکتی ہے ابھی بھی
بیٹھی ہو تو گل دستے کی مانند سمٹ کر

0
133
غزل
مجبور لوگ نقل مکانی میں چل پڑے
جب بن پڑا نہ راستہ پانی میں چل پڑے
ڈر سے ٹھٹک گیا تھا قلم کار کا قلم
کردار ِچند ایسے کہانی میں چل پڑے
سوچا نہ تھا کہ خیر سے جائیں گے ہم کہاں

0
148
غزل
شیخ ڈرنے کی عمر ہے اپنی
عشق کرنے کی عمر ہے اپنی
مل کے بچپن کے بچھڑے یاروں سے
رقص کرنے کی عمر ہے اپنی
خواب خاکوں میں خوب فرصت سے

0
110
غزل
کلیوں کے جیسی نازکی قربان جائیے
رنگیں لبوں کی چاشنی قربان جائیے
پھُولوں کِیطرح کِھل اُٹھیں نازک ہتھیلیاں
رنگِ حِنا کی دِلکشی قربان جائیے
چَھن چَھن کے جھانکنے لگی نازک لباس سے

0
200
غزل
محسوس کی ہے پیار کی حدت کبھی کبھی
نکلی ہے میرے دل کی بھی حسرت کبھی کبھی
جس جا وفا ملے اسے بڑھ کر سمیٹ لیں
ملتی ہے زندگی میں یہ دولت کبھی کبھی
ہم کو وہ التفات سے دیکھیں مگر کہاں

0
241
غزل
شوخ میرے ساتھ ہے پر دِل سنبھلتا ہی نہیں
مختصر سی رات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
وصل کی شب ہجر کے صدمے سناتا ہے کوئی
سامنے کی بات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
ناز نخرے سب دکھاتے ہیں توجہ کے عوض

0
141
غزل
نخرے سے جب وہ ہاتھ چُھڑائیں بھلی لگیں
چَھن چَھن یہ چُوڑیوں کی صَدائیں بھلی لگیں
دونوں جہان جن کی محبت میں لٹ گئے
اب بھی وہ شوخ شوخ ادائیں بھلی لگیں
پُوچھو نہ چَشمِ یار کی جَادُو نِگاہیاں

2
244
غزل
نشتر پکڑ کے خار کو دل سے نکال دوں
سوچا خیالِ یار کو دل سے نکال دوں
دل کو مرے بدل دیا اک لالہ زار میں
اس بے مزہ بہار کو دل سے نکال دوں
آتش کدہ بنا دیا اس دل کا خاک داں

0
151
غزل
دوستوں میں جب باہم فاصلے نکلتے ہیں
آڑ میں چھپے دشمن سامنے نکلتے ہیں
زندگی کے عقدوں کا حل کوئی نہیں آساں
الجھنوں کے بیچوں بیچ راستے نکلتے ہیں
خوف جاہلیت کی طے شدہ علامت ہے

0
191
غزل
آنکھوں کے مے کدؤں کا بھی صدقہ اتارنا
کھلتے ہوئے لبوں کا بھی صدقہ اتارنا
خوشبو اُڑاتی پھرتی ہیں ہر سو فضاؤں میں
زُلفوں کی بدلیوں کا بھی صدقہ اتارنا
پھولوں سی سج رہی ہیں جو رنگِ حنائی میں

0
273
غزل
چندا کو دیکھ بام پہ پردہ گرا لیا
دانستہ ان کی یاد سے دامن چھڑا لیا
بڑھ چڑھ کے ہر رقیب نے پھر تبصرے کئے
موضوع شوخ نے ہمیں جب سے بنا لیا
آوارگی کا آپ نے طعنہ دیا ہمیں

0
118