غزل
عہد جھوٹے کیا کرو کم کم
دَرد مِیٹھے دِیا کرو کم کم
دن قیامت سے تم نہیں ڈرتیں؟
یوں قیامت بپا کرو کم کم
بِن تُمھارے یہ پَل نہیں کٹتے
دُور ہم سے رہا کرو کم کم
آئینے ہو چلے ہیں وارفتہ
زَیب و زِینت کیا کرو کم کم
دیکھ سر مستیاں ہواؤں کی
زُلف کھولے پِھرا کرو کم کم
غیر تکتے ہیں جان حَسرت سے
مُسکراتی پِھرا کرو کم کم
غیر کم ظرف جانے کیا سمجھیں؟
ہنس کے اُن سے مِلا کرو کم کم
لوگ باتیں بنائیں گے جانم
ذِکر میرا کیا کرو کم کم
اس نگوڑے کا کچھ بھروسا ہے؟
آپ دِل کی سُنا کرو کم کم
بات اپنی بھی کچھ کہو جاناں
عَرض میری سُنا کرو کم کم
کُل اَثاثہ مِرا تُمھی تُم ہو
سَرد لہجہ کیا کرو کم کم
دِل کَٹا اَب کلیجہ کَٹتا ہے
آب پَلکیں کیا کرو کم کم
منزلیں منتظر نہیں رہتیں
رَاستوں میں رُکا کرو کم کم
بدنظر لوگ ہیں شہاب احمد
خوبصورت لکھا کرو کم کم
اک گزارش کروں شہاب احمد
مشورے تم دیا کرو کم کم
شہاب احمد
۱ جنوری ۲۰۲۳

0
56