غزل |
محبت جب سنور جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
اگر دل سے اُتر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
نفاست سے پروئے ہوں تو پتھر بھی لگیں موتی |
مگر مالا بکھر جائے ، تو منظر اور ہوتا ہے |
کرے وہ وصل کا وعدہ تو جھوموں شادمانی سے |
شبِ وعدہ مُکر جاۓ، تو منظر اور ہوتا ہے |
غمی میں اشک بہہ جانا تو فطری بات ہے لیکن |
خوشی سے آنکھ بھر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
سکونِ قلب کا باعث، ابھی آبِ رواں لیکن |
کبھی دریا بپھھر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
کوئی اپنا بچھڑ جائے، یقیناً دکھ بڑا ہو گا |
مگر جب ماں گزر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
حسیں دکھتا ہے باغیچہ ہرا موجِ بہاراں میں |
خزاں میں جب بکھر جائے، تو منظر اور ہوتا ہے |
مہاجر شخص کی یہ کم نصیبی ہے شہاب احمد |
پلٹ کر جب وہ گھر جاۓ، تو منظر اور ہوتا ہے |
شہاب احمد |
۲۳ اکتوبر ۲۰۲۴ |
معلومات