| غزل |
| کھنکھناتی ہوئی مٹی سے اُٹھایا مجھ کو |
| آتشِ عشق میں پھر پُختہ بنایا مجھ کو |
| وَصف اِبلیس و ملَائک کے وَدیعت کر کے |
| اپنی تخلیق کا شہکار بتایا مجھ کو |
| ڈال کر اپنی تمنا مرے دل میں خود ہی |
| ہجر کی آگ میں پھر خُوب جلایا مجھ کو |
| وصل کا روز قیامت پہ مقرر کر کے |
| رُوپ ہر اوٹ سے خود اپنا دکھایا مجھ کو |
| موت کا دن ہے مقرر یہ منادی کر دی |
| پھر غمِ دہر کی اُلجھن میں پھنسایا مجھ کو |
| آزمائش کے جہنم میں جلا کر ہر دن |
| خُلد کی حرص و تمنا سے لُبھایا مجھ کو |
| پہلے بے فیض خداؤں میں خدائی بانٹی |
| پھر یہ توحید کا کلمہ بھی سکھایا مجھ کو |
| گرچہ آزاد طبیعت سے نوازا پہلے |
| پھر مقدر کا کھلونا بھی بنایا مجھ کو |
| بے بسی دیکھ کے آدم کی، ہنسی آتی ہے |
| آئینہ خُوب شہاب اُس نے دِکھایا مجھ کو |
| شہاب احمد |
| ۲۰ مارچ ۲۰۱۹ |
معلومات