| غزل | 
| پیار ہو جائے تو ہر بات کے لطف آتے ہیں | 
| ہجر کی شب ہو ۔ ملاقات کے لطف آتے ہیں | 
| کیسی لگتی ہوں میں؟ ہر روز سنور کر پوچھو | 
| ایسے معصوم سوالات کے لطف آتے ہیں | 
| آپ کے قرب کے شعلے جو میسر ہیں ہمیں | 
| سخت جاڑوں میں بھی برسات کے لطف آتے ہیں | 
| جیت کے لطف میں پھر لطف نہیں آتا ہے | 
| پیار ہو جائے تو پھر مات کے لطف آتے ہیں | 
| روز کے روز ملاقات میں کیوں کر ہوتے | 
| یوں بچھڑ کر جو ملاقات کے لطف آتے ہیں | 
| نکتہ چیں جب سے مرے آپ ہوئے ہیں یکدم | 
| نکتہ چینوں کے سوالات کے لطف آتے ہیں | 
| یوں تو تفصیل طبیعت پہ گراں ہے میرے | 
| آپ کا ساتھ ہو جزیات کے لطف آتےُ ہیں | 
| خوب اے شوخ تری طرح کبھی ناطق تھے | 
| بات بے نطق ہو،اب بات کے لطف آتے ہیں | 
| کس طرح زہد و عبادت میں لگے دِل میرا | 
| شوخ نظروں کی عنایات کے لطف آتے ہیں | 
| اس بڑھاپے میں شہاب آپ کو کیا سوجھی ہے | 
| نوجوانی میں خرافات کے لطف آتے ہیں | 
| ۱۱ مارچ ۲۰۲۳ | 
    
معلومات