| غزل |
| رشتے ناطے وفا کے ہوتے ہیں |
| اور جھگڑے انا کے ہوتے ہیں |
| آپ آتی ہو صُبح دَم یا پھر |
| جھونکے بادِ صبا کے ہوتے ہیں |
| تم سجاتی ہو دست و بازو پر |
| رَنگ تیکھے حِنا کے ہوتے ہیں |
| حُسن کے صد ہزار رنگوں میں |
| رَنگ جاذب حیا کے ہوتے ہیں |
| لوگ اپنی قضا سے مرتے ہیں |
| چرچے اُن کی ادا کے ہوتے ہیں |
| واں تو جنبش ہے محض پلکوں کی |
| فیصلے یاں قضا کے ہوتے ہیں |
| جبر ہے ناروا محبت میں |
| فیصلے یہ رضا کے ہوتے ہیں |
| قََدر اِک مشترک ہے ہم سب میں |
| مرتکب ہم خطا کے ہوتے ہیں |
| بانٹتے ہیں جو خلق میں خوشیاں |
| خاص بندے خدا کے ہوتے ہیں |
| پاس رہتا نہیں کسی حد کا |
| مرحلے جب بقا کے ہوتے ہیں |
| حادثے واقعے بہانے ہیں |
| فیصلے سب خدا کے ہوتے ہیں |
| خلق سے مت شہاب شاکی ہو |
| فیصلے سب خدا کے ہوتے ہیں |
| شہاب احمد |
| ۱ جولائی ۲۰۱۸ |
معلومات