غزل
دَرد ہے تو فغاں ضروری ہے
آگ ہے تو دھواں ضروری ہے
وہ کہیں ہاں، تو ہاں ضروری ہے
وہ کہیں ناں، تو ناں ضروری ہے
ناز نخرے ہمارے دَم سے ہیں
حُسن کو قدر داں ضروری ہے
قیمتی چیز ، قدر داں کا حق
دِل نہ ہو رائیگاں ضروری ہے
قربتوں کے الگ بکھیڑے ہیں
فاصلہ درمیاں ضروری ہے
خود فراموش ہے بہت انساں
آئینہ قدر داں ضروری ہے
ہم ہوا پر سوار ہوں تب بھی
پاؤں میں پائے داں ضروری ہے
ِجس قَدر خیر خواہ اکٹھے ہیں
اَب تو اِک پاسباں ضروری ہے
دھوپ برسا رہی ہے انگارے
صاحبو۔ سائباں ضروری ہے
جھوٹ، سچ میں تمیز مشکل ہے
عشق کا امتحاں ضروری ہے
گرچہ ساتھی ہو ایک، مخلص ہو
دوستو ۔ کارواں ضروری ہے؟
بجلیوں سے قفس نہیں جلتے
خس نہیں آشیاں ضروری ہے
جانئے کب زمیں سرک جائے؟
سر پہ اِک آسماں ضروری ہے
بوجھ سے تھک گئے مرے شانے
سر کو اک آستاں ضروری ہے
زندگی کو فروغ ہے اس سے
مرگ ہو ناگہاں ضروری ہے
لوگ بیزار روزمرّہ سے
نت نئی داستاں ضروری ہے
شعر تفسیر کے بنا سمجھے
یار اِک ہم زباں ضروری ہے
فکر اور سوچ کی نمو کے لئے
شعر آتش فشاں ضروری ہے
پھر غزل خواں ہوا شہاب احمد
حَرفِ دِل کا بیاں ضروری ہے
شہاب احمد
۶ دسمبر ۲۰۲۳

0
23