غزل
چمک رہا ہے نیا آفتاب ٹہنی پر
عجب ادا سے کھلا ہے گلاب ٹہنی پر
پلٹ کے آپ نے دیکھا نقاب ٹہنی پر
مہک اٹھے ہیں خوشی سے گلاب ٹہنی پر
ہزار کانٹوں میں رہ کر خوشی خوشی جھومیں
لبوں سے لب ہیں ملاتے گلاب ٹہنی پر
کسی حسینہ کے جوڑے کی یہ بنیں زینت
کھلے ہیں لے کہ یہ حسرت گلاب ٹہنی پر
لچک رہی ہے تمھاری حسیں کمر جیسی
بہار آئی تو آیا شباب ٹہنی پر
نفیس کلیوں پہ عاشق ہوئے ہیں یہ بھنورے
طواف کرتے ہیں خانہ خراب ٹہنی پر
غزل میں سوز ہو ایسا کہ بزم کہہ اُٹھے
چہک رہا ہے یہ بلبل جناب ٹہنی پر
مماثلت ہے لبوں سے نفیس غنچوں کی
اسی لئے تو فدا ہوں شہاب ٹہنی پر
شہاب احمد
۲۰ مئی ۲۰۲۲

0
116