غزل
ہر گھڑی رحمتِ یزداں کا طلب گار ہوں میں
خُوب معلوم ہے انساں ہوں خطا کار ہوں میں
وسعتِ ظرفِِ کرم دیکھ کہ فرماتے ہیں
متقی ہے کہ تُو عاصی ہے مدد گار ہوں میں
پھل لدے باغ بھی شعلوں کے حوالے کر دوں
خوب کہتے ہیں خسارے کا خریدار ہوں میں
کل جنہیں خلّت و منصب سے نوازا بےجا
اُن فرشتوں کی عدالت ہے، گنہگار ہوں میں
ظلمتِ گردشِ دَوراں میں کشش خوب مگر
گیسوئے یار کی الجھن میں گرفتار ہوں میں
تخلیئے میں تو بضد روز طلب کرتے ہیں
رونقِ بزم میں رائندہِ دربار ہوں میں
ناز نخروں پہ دل و جان تصدق لیکن
آتشِ رشکِ رقیباں سے خبردار ہوں میں
جدتِ فکر و نظر گرچہ اثاثہ ہیں شہاب
خوبیِ و حُسنِ رِوایت کا پرستار ہوں میں
شہاب احمد
۱۸ اکتوبر ۲۰۲۴

24