غزل
آؤ مل کر جُت جائیں سب فرصت کے لمحات نہیں
اب کے برس آفت آئی ہے رومانی برسات نہیں
لاکھوں کنبے ڈوب گئے ہیں کچھ معمولی بات نہیں
ہمت کوشش ترک کریں ہم ایسے بھی حالات نہیں
برسوں کی غفلت کے کارن طوفاں برپا ہوتا ہے
بادل رحمت برساتے ہیں طوفانی برسات نہیں
اگلی کرنوں کے آنے تک برسوں دیپ جلانے ہیں
جانے کتنی نسلیں بھگتیں یہ معمولی رات نہیں
ہر اک شہری اس سازش میں فرداً فرداً شامل تھا
دو بادل طوفاں لے آئیں ان کی تو اوقات نہیں
دریاؤں پر بند بنا کر آفت قابو ہو سکتی تھی
لیکن مخلص کاوش ہو تب خالی خولی بات نہیں
برسوں محنت کرنا ہو گی آفت سے چھٹکارے تک
بن محنت خوش حالی آئے یہ ایسی سوغات نہیں
اس دنیا کی دوزخ جنت بنتی ہے کچھ کرنے سے
اللہ اللہ کرنے سے کِھل جائیں گے باغات، نہیں
خوب شہاب احمد کہتا ہے کچھ عملاً بھی کر دکھلا
لُپڑی چُپڑی باتوں سے ٹل جائیں گے آفات، نہیں
شہاب احمد
۲۸ اگست ۲۰۲۲

0
117