| غزل |
| صبح آئے نہ کبھی یار بِنا شام آئے |
| میرے ہونٹوں پہ ہمہ وقت وہی نام آئے |
| مے بھی ہے چاند بھی پرجوش محبت بھی ہے |
| لطف آ جائے ہمیں وصل کا پیغام آئے |
| جان بھی مانگیں تو اک پل نہ تعامل برتوں |
| وصل کا حجرۂ جاناں سے جو انعام آئے |
| دلِ بیتاب کہیں اور بہلتا ہی نہیں |
| سایۂ زُلفِ گرہ گیر میں آرام آئے |
| مدتوں بعد جو لوٹایا وہ دل یوں بولے |
| گرچہ ناکارہ ہے شاید یہ ترے کام آئے |
| جان لینے میں تکلف نہ برتنا جاناں |
| جان حاضر ہے مری جان اگر کام آئے |
| آپ سے آپ تبسم مرے لب پر پھیلے |
| جب تعارف ہو کوئی آپ کا ہم نام آئے |
| چار اطراف سے نظروں نے کیا پتھراؤ |
| لوٹ کر کوچۂ جاناں سے جو ناکام آئے |
| اس کی ناموس کی تقدیس ہمیشہ افضل |
| میری نسبت سے نہ اس پر کبھی الزام آئے |
| میں انھیں شعر سناؤں وہ مرے لب چومیں |
| حجرۂِ وصل میں اس طرح کبھی شام آئے |
| سرخرو کون ہوا کوچۂ جاناں میں شہاب |
| کچھ عجب بھی نہیں ناموس پہ الزام آئے |
| شہاب احمد |
| ۱۷ جولائی ۲۰۲۱ |
معلومات