غزل
بگڑنا بھی ضروری تھا سنورنا بھی ضروری تھا
ہمیشہ وصل سے پہلے تڑپنا بھی ضروری تھا
اگرچہ کم نہیں تھیں زندگی میں الجھنیں پہلے
حسیں زلفوں کے کنڈل سے الجھنا بھی ضروری تھا
بنا سوچے بنا سمجھے بھلا کیوں کر یقیں کرتے
مرا ہر دعویٰ الفت کا پرکھنا بھی ضروری تھا
روایت یہ قدیمی ہے محبت میں یہ لازم تھا
صنم اقرار سے پہلے مکرنا بھی ضروری تھا
بنا اِس کشمکش کے زندگی بےلطف تھی جاناں
سنبھلنا بھی ضروری تھا پھسلنا بھی ضروری تھا
محبت کے تعلق میں کوئی پردہ نہیں رکھتے
ہمیں اک دوسرے کے غم سمجھنا بھی ضروری تھا
غلط فہمی بھنور ایسا ڈبو دیتا ہے ہر کشتی
ہمیں گرداب سے باہر نکلنا بھی ضروری تھا
حوادث نے زمانے کے جنھیں پتھر بنا ڈالا
اُنہیں دلدار بانہوں میں پگھلنا بھی ضروری تھا
گھٹن ہوتی تھی اُس ماحول میں بیزار رہتے تھے
ہمارا قید و بندش سے نکلنا بھی ضروری تھا
مسافر کو نہیں کچھ اختیار اس کارِ ہستی میں
کہیں رُکنا ضروری تھا کہیں چلنا ضروری تھا
کبھی ہم متفق ہوتے تھے ہر موضوع پر یارو
مگر پھر زاویے اپنے بدلنا بھی ضروری تھا
کبھی شملہ ہمارا بھی قد و قامت سے اونچا تھا
مگر پھر خاک کا پُتلا بکھرنا بھی ضروری تھا
ذرا یکسانیت ہو تو طبیعت پر گراں گزرے
شہاب احمد مناظر کا بدلنا بھی ضروری تھا
شہاب احمد
۲۲ مارچ ۲۰۱۸

0
16