غزل
مسکراتے ہوئے لب دیکھ مچل جاتا دل
اک شکن ہوتی جبیں پر تو دہل جاتا دل
خوب سنجیدہ مزاجی سے محبت کی ہے
کوئی لونڈا تھا میں اُوباش بدل جاتا دل
گوشے گوشے پہ بدن اس نے ترے بوسے لئے
سخت پتھر سے بنا ہوتا پگھل جاتا دل
رات پندارِ محبت نے بچایا کافر
شوخ قدموں کی روانی میں کچل جاتا دل
نرم رخسار وہ سینے پہ نہ رکھتی کل شب
دھڑکنیں تیز تھیں سینے سے نکل جاتا دل
اب تو ہر وقت یہ قربت کے تعلق مانگے
اوّل اوّل ترے وعدوں سے بہل جاتا دل
شیخ گر شوخ کے کوچے میں قدم رکھ لیتے
پھر سنبھالے نہ سنبھلنا تھا پھسل جاتا دل
رنج ہوتا ہے رقیبوں کے دلوں کا دلبر
دیکھتے آپ کو پہلو میں تو جَل جاتا دل
قیمتی چیز ہے تاکید تبھی تو کی تھی
رنج رہتا تمھیں ہاتھوں سے پھسل جاتا دل
سادگی دیکھ شہاب اُن کی کھلونا سمجھیں
لطف آتا کبھی ہاتھوں سے پھِسل جاتا دل
شہاب احمد
۱۰ دسمبر ۲۰۲۱

0
58