غزل
زندگی تم مِرے تعاقب میں
اور میں خواب کے تعاقب میں
مرتکز تھی نگاہ تتلی پر
کھو گئے راستے تعاقب میں
رُوپ دیکھا مِرا فقیرانہ
چل پڑے منچلے تعاقب میں
رَات دِن ہیں عَجب کشاکش میں
پَھنس گئے ہم بُرے تعاقب میں
بچ نکلتا میں بھیڑ سے لیکن
ایک سایا مِرے تعاقب میں
جانے ہلکان ہو رہی ہے کیوں
زِندگی مَوت کے تعاقب میں
طوق لے کر کھڑے قطاروں میں
سابقے لاحقے تعاقب میں
مشعلیں لے کے ایک فرد اٹھا
کارواں چل پڑے تعاقب میں
چُٹکلا چھوڑ کر میں بھاگ لیا
پڑ گئے سَر ِپھرے تعاقب میں
تھک گیا ہوں شہاب سستا لوں
بھاگتے بھاگتے تعاقب میں
شہاب احمد
۱۳ اپریل ۲۰۲۵

0
20