غزل
شوخ میرے ساتھ ہے پر دِل سنبھلتا ہی نہیں
مختصر سی رات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
وصل کی شب ہجر کے صدمے سناتا ہے کوئی
سامنے کی بات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
ناز نخرے سب دکھاتے ہیں توجہ کے عوض
لُطف کی یہ بات ہے پر دل سمجھتا ہی نہیں
دل لگی غیروں سے کرتے ہیں ستاتے ہیں ہمیں
اُن کی کیا اوقات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
بے وفاؤں سے وفاؤں کی طلب دل کا زیاں
گو مدلل بات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
ہم نفس کے بِن نہیں ہے بادہ خانے کا مزا
مد بھری برسات ہے پر دِل بہلتا ہی نہیں
مضمحل اعصاب ہو جاتے ہیں آخر ایک دن
قدرتی سی بات ہے پر دِل سمجھتا ہی نہیں
لاکھ سمجھاتا ہوں ناداں شکر کر اس ذات کا
َدردِ دِل سوغات ہے پر دِل بہلتا ہی نہیں
آپ آئے ہیں ہمارے پُرسش احوال کو
پُر مسرت بات ہے پر دل مچلتا ہی نہیں
بد گمانی کا سبب کوئی نہیں ہے ہاں مگر
تنگیِ حالات ہے پر دل سمجھتا ہی نہیں
کچھ برس پہلے تو بس یونہی بھڑک اٹھتا تھا دِل
آتشِ جذبات ہے پر دِل سلگتا ہی نہیں
کچھ حوادث نے شہاب احمد کیا پتھر مجھے
رَنج کی برسات ہے پر دِل پگھلتا ہی نہیں
شہاب احمد
۲۱ اگست ۲۰۲۰

0
143