غزل
یار مل جائے، تو مل جائیں خزانے سارے
چند لمحوں میں سمٹ جائیں زمانے سارے
دَرد تازہ مرے بازیچۂ دل میں بَو دَو
دوست کملا سے گئے زخم پرانے سارے
حسرتیں تشنہ ہزاروں مرے دِل میں رہتیں
گرچہ سچ ہوتے مرے خواب سہانے سارے
ہاتھ کٹ جائیں گے، اندیشہ نہ ہوتا اے دِل
یار آ جاتے ترے کانچ اُٹھانے سارے
جَلد دستانے چڑھا لو گے، شہاب احمد تم
لوگ آ جائیں اگر ہاتھ مِلانے سارے
شہاب احمد
۱۶ ستمبر ۳۰۲۵

0
5