غزل
ہاتھ میں ہاتھ دو، جئیں گے ہم
ورنہ، جی کر بھی کیا کریں گے ہم
جِن اداؤں کو زندگی جانیں
اُن اداؤں پہ مر مٹیں گے ہم
آپ نے کس بنا پہ ٹھکرایا
خَلق پُوچھے تو کیا کہیں گے ہم
خوش، تمھارے وقار کی خاطر
خود پہ الزام سب سہیں گے ہم
جَان پہچان سے مُکر جانا
اِتفاقاً، کہیں، مِلیں گے ہم
بینچ لو جاتے جاتے بانہوں میں
پھر نہ جانے کبھی ملیں گے ہم
اشک موتی سنبھال کر رکھنا
ہنستے ہنستے وداع کہیں گے ہم
جب کہو جاں نِثار کر ڈالیں
ایک لمحہ نہیں رُکیں گے ہم
مَر مِٹے تب تمھیں یقیں آیا
ہم نہ کہتے تھے مَر مِٹیں گے ہم
زخم بھر جاتے ہیں سبھی آخر
کب تلک غم زدہ رہیں گے ہم
تَرک کر کے شہاب سب دُنیا
دُور جنگل میں جا بسیں گے ہم
شہاب احمد
۸ جون ۲۰۲۳

0
56