| غزل |
| بے وجہ سب سے محبت ہے مصیبت کیا ہے |
| کون سمجھائے موئے دل کو حقیقت کیا ہے |
| ایسے لوگوں سے محبت کی ضرورت کیا ہے |
| جن کو یہ تک نہیں معلوم محبت کیا ہے |
| شوخ نظروں نے شرارت پہ اِسے اُکسایا |
| ورنہ کم بخت موئے دل کی جسارت کیا ہے |
| بے وجہ تم بھی پریشان ہو دل میں بھی ہوں |
| چھوڑ حساس طبیعت کی ضرورت کیا ہے |
| آج پھر خندہ جبینی سے ملا ہے دشمن |
| زیر عنوان خدا جانے عبارت کیا ہے |
| زندگی جتنی میسر ہو اُسے خُوب جیو |
| کون جانے ہے کہ جنت کی حقیقت کیا ہے |
| جن کو آدابِ رقابت سے نہیں آگاہی |
| ایسے بیکار رقیبوں سے عداوت کیا ہے |
| برملا بزم میں اقبالِ محبت ہے ہمیں |
| عشق سچا ہے تو پھر وجہ ندامت کیا ہے |
| لوگ ملتے ہیں شہاب اور بچھڑ جاتے ہیں |
| رنج کی بات مگر ایسی قیامت کیا ہے |
| شہاب احمد |
| ۱۵ فروری ۲۰۲۲ |
معلومات