غزل |
آپ کیا سمجھے کہ ہم بھی ُاس کو سمجھانے گئے |
ہم میاں ابلیس کے گھر اُس کو بہکانے گئے |
بے سبب غو غا رقیبوں نے مچایا شہر میں |
ہم شبستاں میں حسیں گیسؤ کو سلجھانے گئے |
دیکھنا اَب راستے اپنے بدل لیں گے عدو |
ہم ترے کوچے میں قصداً ان سے ٹکرانے گئے |
دن گزارا ہم نے گرچہ توبہ استغفار میں |
شام ہوتے ہی پلٹ کر پھر سے میخانے گئے |
دیکھ کر مسجد میں مت سمجھو مسلماں ہو گیا |
ہم تو تھوڑی دیر یونہی دل کو بہلانے گئے |
کل نکلتے تھے، مؤذن نے اَذانِ فجر دی |
پَل رُکے، سوچا، پلٹ کر پھر سے میخانے گئے |
آندھیوں نے کارواں کو پھر تحفظ دے دیا |
یوں حجابوں میں چھپے کچھ چور پہچانے گئے |
خیر مقدم کے لئے وہ اُٹھ کے در تک آ گئے |
شیخ کے گھر مجھ سے پہلے میرے نذرانے گئے |
سوچتے تھے تب شہاب احمد نہ پلٹیں گے کبھی |
جب پلٹ کر بزم میں ہم سارے پیمانے گئے |
شہاب احمد |
۲۹ جولائی ۲۰۲۵ |
معلومات