غزل
اُن سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
“وَرنہ دُنیا میں کیا نہیں ہوتا”
گرچہ گزریں قیامتیں ہر دِن
حشر پھر بھی بپا نہیں ہوتا
کشمکش گوں نہ گوں نہیں ہوتی
زندگی میں مزا نہیں ہوتا
عشق میں ٹوٹ پھوٹ ہو سو ہو
تجربہ یہ بُرا نہیں ہوتا
کچھ بُرا بھی ضرور ہے لیکن
سب یقیناً بُرا نہیں ہوتا
حُسن جتنا لطیف و ارفع ہو
عِشق سے ماورا نہیں ہوتا
جھوٹ کو تقویت پہنچتی ہے
حق پہ جب فیصلہ نہیں ہوتا
جھوٹ لکھوں ضمیر بوجھل ہو
سچ کہوں حوصلہ نہیں ہوتا
سوچ لو شہر دل سے جاؤ تو
واپسی راستہ نہیں ہوتا
ختم کسطرح رنجشیں ہوتیں
باہمی مشورہ نہیں ہوتا
قدر آتی ہے دوستوں کی تب
جب کوئی ہم نوا نہیں ہوتا
جڑ تناور شجر کی کٹ جائے
وہ دوبارہ ہرا نہیں ہوتا
کاش تدبیر سوجھتی پہلے
آج یہ حادثہ نہیں ہوتا
باہمی چاہتیں سلامت ہیں
مدتوں رابطہ نہیں ہوتا
شرح لکھ دیں ہزار صفحوں پر
شعر کا حق ادا نہیں ہوتا
شوخ بولا شہاب مر بھی جا
ہنستے ہنستے کہا” نہیں ہوتا”
شہاب احمد
۱۵ جولائی ۲۰۲۳

0
56