| غزل |
| حقائق پر نہ مبنی ہو تو چاہت مار دیتی ہے |
| عقیدت حد سے بڑھ جائے عقیدت مار دیتی ہے |
| کہیں تنہائیاں انسان کو جینے نہیں دیتیں |
| کہیں اچھے بھلے انساں کو صحبت مار دیتی ہے |
| کسی سے پیار کے بدلے کوئی امید مت باندھو |
| نہ پورے ہوں اگر ارماں تو حسرت مار دیتی ہے |
| مروّت ہی مروّت میں وہ سہہ جائیں ستم سارے |
| سعادت مند لوگوں کو مروت مار دیتی ہے |
| دوا کوئی نہیں دنیا میں دائم زندہ رہنے کی |
| اگر نفرت سے بچ نکلیں محبت مار دیتی ہے |
| ہمیں دن رات کی مصروفیت سے ہے بہت شکوہٰ |
| جنہیں فرصت میسر ہے فراغت مار دیتی ہے |
| بہت سے لوگ گمنامی میں مر جانے سے ڈرتے ہیں |
| مگر اکثر یہ دیکھا ہے کہ شہرت مار دیتی ہے |
| بہت سے لوگ سستی میں پڑے رہتے ہیں جیون بھر |
| مگر جب ہوش آتا ہے تو اجلت مار دیتی ہے |
| بہت غافل ہیں جو غفلت میں لمبی عمر جیتے ہیں |
| کہیں اک لمحہ بھی غفلت ہو غفلت مار دیتی ہے |
| وہ جھگڑے میں نہیں پڑتے کسی غنڈے موالی سے |
| شریفاً نفس لوگوں کو شرافت مار دیتی ہے |
| امیروں کی تجوری بھر بھی جائے دل نہیں بھرتے |
| غریبوں کو مگر ان کی سخاوت مار دیتی ہے |
| کبھی مرتے نہیں دیکھا کسی موسیٰ کو فرعوں سے |
| مگر فرعون کو اس کی رعونت مار دیتی ہے |
| تری شیریں بیانی کا میں قائل ہوں شہاب احمد |
| مگر اشعار میں پوشیدہ حکمت مار دیتی ہے |
| شہاب احمد |
| ۱۱ اگست ۲۰۲۱ |
معلومات