Circle Image

Faizan Hassan Tahir Bhatti

@fazan1397

ٹپکتا ہے لہو القدس کی سب داستانوں سے
چھپے گی بات نہ تاریخ کے یہ رازدانوں سے
کبھی بھائی کبھی بیٹا بہن ماں باپ اور بیٹی
جنازے ہیں اٹھے سب کے ہمارے آشیانوں سے
نبھاتا ہے کوئی یاری کئی غربت میں چھپ سادے
ہمیشہ ہی لٹے ہیں ہم تو اپنے پاسبانوں سے

0
16
کوئی ملتا غم مٹانے کے لیے
آنکھ بے چیں ہے رلانے کے لیے
میں گلہ کرتا کیا غیروں سے اب
اپنے نکلے ہیں ہرانے کے لیے
دیکھتی چہرہ رہیں آنکھیں مری
ہاتھ آۓ جب ملانے کے لیے

0
139
اترا ذرا نقاب تو دنیا بدل گئی
دیکھا ترا شباب تو دنیا بدل گئی
تیری نگاہ ناز سے موسم بدل گیا
مہکا ذرا گلاب تو دنیا بدل گئی
تو نے اٹھائی آنکھ تو روشن ہوا جہاں
دیکھا ترا جو خواب تو دنیا بدل گئی

0
136
اسے کہنا محبت میں تباہی اب نہیں ہو گی
وفا اس شرط پر کرنا جدائی اب نہیں ہو گی
گلہ کرتے بھی کیا بلبل بہارؤں کے تٖغافل سے
قفس گر کھل بھی جائیں تو رہائی اب نہیں ہو گی
در و دیوار کے تو ہے علاوہ کچھ نہیں گھر میں
اگر جل جاۓ گھر بھی تو تباہی اب نہیں ہو گی

7
455
میرے دل میں بستا تھا وہ جمال تیرا تھا
جسکو اپنا سمجھا تھا وہ خیال تیرا تھا
حاصلِ محبت بھی دیکھ کیا ملا مجھ کو
چھوڑ جاؤ گاکب میں ،یہ سوال تیرا تھا
جس سے دل یہ روشن ہے جس سے دل منور ہے
دل میں جھانک کر دیکھا وہ جمال تیرا تھا

7
252
تم اپنی محبت کے انداز بدل ڈالو
مجھ پر نہ یقیں ہو تو ہمراز بدل ڈالو
الفت میں خسارا ہے معلوم تمھیں ہے گر
انجام سے پہلے ہی آغاز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ظاہر ہے اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو انداز بدل ڈالو

1
356
تم اپنی محبت کے انداز بدل ڈالو
مجھ پر نہ یقیں ہو تو ہمراز بدل ڈالو
الفت کے خسارے کا معلوم اگر ہے اب
انجام سے پہلے تم آغاز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ظاہر ہے اگر کرنا
تم اپنے کھیل کا ہی انداز بدل ڈالو

8
493
ساری دنیا سے میں نے عداوت کی تھی
تھام کے ہاتھ تیرا محبت کی تھی
رازداں جس کو اپنا میں نے سمجھا تھا
آج اس شخص نے بھی عداوت کی تھی
آنکھ میری اسی وقت بھیگی تھی جب
گزرے لمحوں کی میں نے تلاوت کی تھی

0
190
زمانہ اب تو دیکھتا رہ جاۓ گا
وہ بھول کے بھی سوچتا رہ جاۓ گا
مزاج دیکھ کے میں نے اسے کہا
مرا وجود ڈھونڈتا رہ جاۓ گا
نہیں ملے گی دنیا میں وفا اسے
زمانہ کو وہ جھانکتا رہ جاۓ گا

0
141
چراغ اپنے ہاتھوں سے بجھا دیا
تھا غیر اس لیے اسے مٹا دیا
ہزار غم ہیں آج میری دنیا میں
خوشی نے خود کو غیر ہی بنا دیا
اسے میں کیسے بھول جاتا یہ بتا
زمیں کو جس نے غم فلک بتا دیا

0
61
میری تو غم سے عقیدت ہو گئی
لگتا ہے دنیا سے فرصت ہو گئی
آنکھ میری تو بہت روتی ہے اب
سوچا بھی کب تھا جو حالت ہو گئی
دل مرے کو ملا تھا جب بھی سکوں
تو زمانے کو شکایت ہو گئی

0
93
پھول پر آج بہاروں کا نشہ طاری ہے
یاد رکھ گل تو !خزاں کا بھی سفر جاری ہے
ڈوب جاتی ہیں نگائیں بھی مری آنسوؤں سے
دیکھ چاہت میں مری کتنی !یہ بے داری ہے
اب تو شبنم بھی برس جاتی ہے ہر شب گل پر
گل بہاروں میں برسنے کی تری باری ہے

0
102
تیری باہوں کے حسیں جال میں آجاؤں گا میں
مجھ کو معلوم ہے اس چال میں آجاؤں گا میں
جینا ہو جاۓ گا مشکل بھی بنا تیرے بہت
یہ نا معلوم تھا اس حال میں آجاؤں گا میں
دیکھ کے دنیا ادا اس کی مجھے یاد کرے
دیکھ میں اس کے خدوخال میں آجاؤں گا میں

0
186
محبت کے وہ تال میں آجاۓ گا
وفا جب تری چال میں آجاۓ گا
کیا کرتے تیرے لیے ہم نوا اب
جفا جب اسی سال میں آجاۓ گا
وفا کے قدم دنیا بھی روک دے گی
وفا اپنی جب چال میں آجاۓ گا

0
27
396
الفت وفا سے ہاتھ ملا کر نہیں گیا
روٹھا ہے کیوں یہ بھی وہ بتا کر نہیں گیا
گلشن کے پھول کہتے تھے بلبل سے یاد کر
موسم تجھے سبق بھی دلا کر نہیں گیا
لگتا ہے لوٹ آۓ گا کچھ دیر میں جفا
جو خود دیا ستم کا بجھا کر نہیں گیا

0
170
وہ دتیا تھا وفا کی دہائی بھی
جو دیتا تھا جفا میں دکھائی بھی
نہیں کرتے دغا وہ جفا سے اب
کیا دیتا وفا کو سنائی بھی
صفیں نیکوں کی دیکھیں میں نے جب سے
نہیں دیکھی میں نے پارسائی بھی

0
96
وہ بچھٹرا تو سویا نہ گیا
دل میرے سے رویا نہ گیا
گلشن میں ایسے پھول بھی تھے
پا کے جن کو پرویا نہ گیا
بے بسی پر ہم ہستے ہی رہے
لب سے جب کچھ گویا نہ گیا

118
میں نے کب دنیا کے دوارے مانگے
میں نے تو تیرے ہی سہارے مانگے
میری بھی قسمت کو جگا دو آقا
میں نے بھی غم سے ہیں کنارے مانگے
میں بھی آجاؤں جو اجازت ہو تو
میں نے ہیں روضے کے نظارے مانگے

0
122
بچھڑ جانے کا غم نہیں تھا
بدل کے وفا دم نہیں تھا
مجھے پوچھتے تو بتاتا
ستم تیرا تو کم نہیں تھا
بہک جاتے مے خانے میں سب
مگر جام میں جم نہیں تھا

106
الفت میں سب اجڑ گئے ہیں
تیرے غم میں بکھر گئے ہیں
ہم نے تو شمع بھی بجھا دی
پروانے جب ادھر گئے ہیں
بولے وہ لاش دیکھ کے سب
اس دنیا سے کدھر گئے ہیں

130
یہ درد دکھائیں کس کو پیارے
اب اور رلائیں کس کو پیارے
ہر کوئی ہے مبتلا جفا میں
غم اپنا دکھائیں کس کو پیارے
تنہائی میں روتا ہوں بہت میں
رو رو کے دکھائیں کس کو پیارے

0
92
میرے دل کا جو اقرار تھا
ان کے دل کا میں حق دار تھا
وہ بہت کرتے تھے جب وفا
بدلہ لینے کا اوزار تھا
پھول کھلتے بہاروں میں ہیں
یہ ہی گلشن کا معیار تھا

151
بات الفت کی سنانے لگے ہیں
روز ہم کو وہ رلانے لگے ہیں
پھول گلشن سے وفا کرتے تو ہیں
دل کو یہ کہہ کے بھلانے لگے ہیں
جب نہیں کی میں نے تکرار بھی اب
کیوں وہ پھر مجھ کو ستانے لگے ہیں

97
ہم نے محبت کے زمانے مانگے
لوگوں نے الفت کے فسانے مانگے
دیکھے ہیں چرچے جب سے تیرے ہم نے
تب ترک چایت کے بہانے مانگے
سب لٹ گئے ہیں نام کی وفا پر
انداز جب سب نے شہانے مانگے

0
111
سب شہروں میں ہنگامے دیکھے ہیں
غم اپنے سب سر ہانے دیکھے ہیں
میرے دامن میں مے خانے ہیں اب
سب دکھ میں جب مستانے دیکھے ہیں
دیئوں کو جب بھی جلتا دیکھا ہے
مرتے میں نے پروانے دیکھے ہیں

140
تم خاک الفت کی اڑاتے جاتے
نفرت مٹا کے ہم بھی آتے جاتے
دن بھی گزر گے تیری یاد میں سب
تم چہرہ تو مجھ کو دکھاتے جاتے
کب وقت تھا اس کے بھی پاس یاروں
اب ناز وہ کیسے اٹھاتے جاتے

0
74
محبت کسی نے وفا کی
یہاں جان کس نے فدا کی
یہی کہتے ہیں سب مجھے اب
یہ زخموں کی تم نے دوا کی
میں نے جب بھی مانگا اسے ہے
لبوں نے بھی خود سے دعا کی

0
102
اپنوں نے بھی افسانہ کر دیا
ہر طرف ہی ویرانہ کر دیا
یاد ان کی دنیا نہیں مجھے
جب کا مجھ کو مستانہ کر دیا
شمع نے اجالے تو کر دیے
قتل جل کے پروانہ کر دیا

0
97
سب کہتے ہیں دلوں میں نفرت کم ہے
یہ صورت ہے تو پھر عنایت کم ہے
سب لوگوں نے اگر وکالت کی ہے
اس کا مطلب نہیں عداوت کم ہے
غم تھے برباد جب شرافت سے سب
دنیا میں اس لیے صداقت کم ہے

0
146
سب ہیں ہاتھوں میں آتش اٹھاۓ ہوۓ
اپنے دیکھوں وہ خود ہی پراۓ ہوۓ
کر کے وعدے تو پورے نہیں کرتے اب
دھوکے دے کے بہانے بناۓ ہوۓ
اب نہیں روتے بلبل وہ گلشن میں اب
جب سے گلشن خزاں ہیں سجاۓ ہوۓ

0
106
ہم نے کب الفت کے ازالے مانگے
جب سے دیئوں نے بھی اجالے مانگے
جب سے غربت نے کی وکالت میری
ہم نے کب چاہت سے جوالے مانگے
شفقت تھی یا سب تھی عنایت ان کی
ہم نے کب خدمت کے قبالے مانگے

0
100
جب دل بچانے کے فسانے ڈھونڈھے
سب بے وفاؤں کے ٹکانے ڈھونڈھے
اب کون کرتا ہے وفا یہاں پر
لوگوں نے خود غم کے خزانے ڈھونڈھے
سب پھول بھی اپنے خزاں بھی اپنی
پھر کیوں نہیں گلشن ترانے ڈھونڈھے

0
76
اپنوں نے ہاتھوں سے جلایا مجھے
اپنوں نے تو زہر پلایا مجھے
بات نہیں کرتے محبت کی اب
جب سے محبت نے رلایا مجھے
ہوتی وفا تو نہ جدا ہوتے سب
تھے بے وفا سب نے دکھایا مجھے

1
148
دنیا کے ڈر سے کنارے مانگے
ہم نے کب تجھ سے سہارے مانگے
بات الفت کی رہی کب پیارے
دنیا نے خود ہی شرارے مانگے
کون کرتا ہے وفا اپنوں سے
اپنوں نے خود ہی خسارے مانگے

0
107
جس نے بھی دامن ہے بچایا میرا
اس نے دامن غم سے سجایا میرا
جب بلبل سے پھول کی قیمت پوچھی
بولا تم نے دل ہے جلایا میرا
ہم نے جب بھی پیار کیا دنیا سے
سب نے مجھ کو وہم بتایا میرا

10
163
لب پر جب ذکر آیا تیرا
غم میں نے خود ہی پایا تیرا
ہو گے سب وہ جدا وفا سے
جس پر بھی تھا یہ سایا تیرا
در پر ان کے میں کیسے جاتا
جس در سے غم کمایا تیرا

1
132
سارے گلشن کے افسانے نکلے
بلبل پھولوں کے دیوانے نکلے
کشتی دریا سے کہتی رہتی ہے
تیری موجوں سے یارانے نکلے
غم جتنے تھے مٹ جائیں گے اک دن
سب کو سمجھانے مے خانے نکلے

0
120
جب بھی خود کو منانے نکلا
غم کو خود ہی مٹانے نکلا
جب سے اپنا نفس ہے مجرم
خود سے خود کو بچانے نکلا
ان کے در پر وفا کہاں ہے
پھولوں کو خود چرانے نکلا

1
115
پیار کی نار میں خود کو معدوم کر
ماضی کی یاد سے خود کو محروم کر
لوگ کرتے وفا دنیا میں جب نہیں
تم بھی الفت سے نا خود کو ملزوم کر
بات غفلت کی ہو یا ہو نفرت کی اب
مت کسی اپنے کو خود سےمقسوم کر

0
115
غربتوں میں بھی بھلائی کے ٹکانے مانگے
دشمنوں سے بھی صفائی کے فسانے مانگے
زاویے اتنے بھی میرے ہے نہیں ٹیڑے اب
ہم نے فرصت میں جدائی کے زمانے مانگے
کون دیتا ہے گدائی میں وراثت اپنی
ایسی خدمت کے نہیں میں نے شہانے مانگے

118
کسی کلی میں نہ خار میں رکھ
توجہ بھنورے کے پیار میں رکھ
پلٹ کے آئیں بہار کے دن
خزاں میں دل انتظار میں رکھ
چمن کے برباد ہونے تک تو
صدا پرندوں کی غار میں رکھ

3
130
تیرے لب پر کوئی گلہ ہوتا
پیار میں کوئی تو خفا ہوتا
بات ہوتی اگر یہ الفت کی
اپنوں سے کوئی نا جدا ہوتا
ہوتی گلشن میں سب بہاریں تو
پھول کانٹوں کے پھر سوا ہوتا

176