الفت وفا سے ہاتھ ملا کر نہیں گیا
روٹھا ہے کیوں یہ بھی وہ بتا کر نہیں گیا
گلشن کے پھول کہتے تھے بلبل سے یاد کر
موسم تجھے سبق بھی دلا کر نہیں گیا
لگتا ہے لوٹ آۓ گا کچھ دیر میں جفا
جو خود دیا ستم کا بجھا کر نہیں گیا
دیکھاتا تھا مجھے وہ لکیریں بھی ہاتھ کی
وہ کیوں نصیب میرے بنا کر نہیں گیا
فیضان کیوں جفا سے گلہ کرتا اب وفا
جب درد سب وفا ہی مٹا کر نہیں گیا
فیضان حسن طاہر بھٹی

0
173