ہاتھ رستے میں مجھ سے چھڑا تو لیا تیرے بن آب و دانہ رہا تو نہیں
|
دل تڑپتا ہے جب بھی تری یاد میں دل کو کہتا ہوں کچھ بھی ہوا تو نہیں
|
عکس تیرے مرے پاس محفوظ تھے تیرے کہنے پہ محذوف کرتا رہا
|
اک تخیل ہے دھندلا مرے ذہن میں تیری صورت ہے شاید لگا تو نہیں
|
وہ سکندر تھا جو ڈھونڈتا تھا مگر نسخہ ہائے بقا اس کو نئیں مل سکا
|
موت آتی ہے اس جسم ناسوت کو بعد اس کے کبھی بھی فنا تو نہیں
|
|