تمہارے بن مجھے کشمیر بھی ویران لگتا ہے
مجھے ہر دوست بھی میرا یہاں انجان لگتا ہے
تعلق توڑنے والے خدارا لوٹ کر آ جا
ترا ایسے چلے جانا بڑا نقصان لگتا ہے
ترے ہونے سے یہ سانسیں سہولت سے تو آتی تھیں
مگر اب آئینے میں دیکھو اک بےجان لگتا ہے
انانیت جو باقی ہے وفا سے کیا یہ واقف ہو
اسے دعوی محبت کا ہے یہ نادان لگتا ہے
تجھے اجڑے لگے ہیں ہم تو اس میں کیا تعجب ہے
ہمیں خود بھی ہمارا حال نا پرسان لگتا ہے
خدا کی ہی عطا ہے پر ریاضت بھی تو لگتی ہے
غزل کہنا بھلا تم کو کوئی آسان لگتا ہے
ترا بیمار ہے ارقم تری ہی راہ تکتا ہے
مجھے تو چند گھڑیوں کا یہاں مہمان لگتا ہے

0
3