تھکا ہارا ہوں یارب نیند آئے
کوئی نسخہ مجرب نیند آئے
تصور تیرا رخصت ہو گیا ہے
ابھی گزری ہے سہ شب نیند آئے
میں بچہ تھا تو ماں لوری سناتی
اکیلے میں مجھے کب نیند آئے
مرے ہمرہ خموشی چیختی ہے
اگر تنہائی ہو تب نیند آئے
ترے ہونے سے بے چینی بہت ہے
مرے دل! تو کہیں دب نیند آئے
ترے دل کی صدارت چھن گئی ہے
ملے پھر سے یہ منصب نیند آئے
تبسم میں نے چہرے پر سجائی
ہے تیرا نام بر لب نیند آئے
بہت روئیں گے اس دن سارے ارقم
مجھے آرام سے جب نیند آئے

0
9