وفا کے دعوے سے پہلے ہی خو سیکھو مچلنے کی
وفاداروں کی عادت ہی نہیں ہے شکوہ کرنے کی
تمھارے ہجر میں دل رات یہ آنکھیں مچلتی ہیں
ضرورت اب نہیں اس شہر میں بادل برسنے کی
اسے لے آو یارو ! اس کو دیکھوں تو سکوں آئے
کوئی صورت نہیں اس کے سوا دل کے بہلنے کی
تمھارے ہجر میں بینائی کے جانے کا خدشہ ہے
مگر طاقت کہاں ہے ثانئ یعقوب ہونے کی
کسی دل سے اترنے کے لئے لمحہ ہی کافی ہے
ریاضت کرنی پڑتی ہے کسی دل میں اترنے کی
مجھے اس کا نگاہِ جام پینے کی تمنا ہے
مجھے بے خود ہی رہنا ہے ضرورت کیا سنبھلنے کی
فرشتہ تو نہیں ہوں درگزر کر لو خطاوں سے
میں آدم زاد ہوں میری تو عادت ہے پھسلنے کی
ہمیں لا تقنطو سے حوصلہ اتنا ملا ارقم
گنہگاری میں بھی ہم کو تمنا اب ہے مرنے کی

0
3